• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصطفٰی جاوید

پیارے ساتھیو! آپ نے بہت سے کھیل کھیلے ہوں گے اور بہت سے کھیلوں کے بارے میں سنا بھی ہوگا آج ہم آپ کو پولو کھیل کے بارے میں بتا تے ہیں۔یہ بادشاہوں کا کھیل کہلاتا ہے ۔اس کھیل کی تاریخ بہت پرانی ہے۔بنیادی طور پر یہ ایرانی کھیل ہی ہے۔سیکڑوں برس قبل ایرانی بادشاہوں نے اس کھیل کو اپنے فوجیوں کی ورزش اور جسمانی مضبوطی برقرار رکھنے کے لیے کھیلنا شروع کیا تھا۔ مغل بادشاہ قطب الدین ایبک کا 1210ء میں چوگان یعنی پولوکھیلتے ہوئے ہی گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تھا۔

افغانستان میں اس سے ملتا جلتا کھیل ان ہی مقاصد کے لیے ایک لمبے عرصے تک کھیلا جاتا رہا۔آہستہ آہستہ یہ ایشیا کا مقبول کھیل بن گیا۔مغل حکمران اورنگزیب عالم گیر کے بارے میں یہ دل چسپ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے فوجی کمانڈروں کا انتخاب پولو کے میدانوں سے کرتا تھا اور یہی وہ کمانڈوز تھے کہ جن سے اس نے ایک لمبے عرصے تک بر صغیر پر حکومت کی

ظاہریہ کھیل گھوڑے پر سوار ہو کر گیند کولے کر بھاگنے کا نام ہے ،مگر اصل میں حریف کی چالیں سمجھ کر انھیں ناکام بنانے کی حکمتِ عملی طے کرنا ہے ۔میدان میں دو ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف گول کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ہر ٹیم میں چار گھوڑ سوار کھلاڑی شامل ہوتے ہیں ۔ان کھلاڑیوں کی پوزیشن نمبروں کی ترتیب سے ہوتی ہے ۔

ابتدامیں پولو کے لیے لکڑی کی گیند استعمال ہوتی تھی ۔اب پلاسٹک کی استعمال ہوتی ہے،جس پر چمڑا چڑھا ہوتا ہے ۔گیند کو مارنے کے لیے کھلاڑی جو چھڑی استعمال کرتا ہے ۔

اس کی لمبائی مختلف ہوتی ہے ۔یعنی اس کا انحصار گھوڑے کی اونچائی پر ہے ۔حفاظتی اقدامات کے طور پر اس کھیل میں شامل کھلاڑی ایک ہیلمٹ اور فیس گارڈ ،گھوڑے پر زین ور کھلاڑیوں کے گھٹنوں کے لیے پیڈز استعمال کرتے ہیں ۔پولو کے کھیل میں قواعد وضوابط کی پابندی کے لیے دو امپائر اور ایک ریفری ہوتا ہے۔

پولوکے لیے منہگے اور نایاب گھوڑے مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ۔ولو کے سب سے بڑے مقابلے پاکستان کے علاقے ’شندور “کے مقام پر ہوتے ہیں ۔یہ دنیا کا بلند ترین پولو میدان ہے ۔یہ سطح سمندر سے 12500فیٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ان مقابلوں میں دنیا بھر سے نام ورکھلاڑی آتے ہیں ۔پولو کی وجہ سے اس علاقے کی شہرت ساری دنیا میں ہے۔

تازہ ترین