• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افراط و تفریط …افراتفری …ہے کہ ہر جگہ مچی ہوئی ہے۔ ایک دن کا اخبار اٹھالیں،کسی بھی دن کا، اربوں کی بدعنوانیوں کی کہانیاں منہ چِڑاتی نظر آتی ہیں ۔مملکت خداداد کا کوئی ادارہ شاید ہی ہو جہاں لوٹ مار نہ کی گئی ہو ۔پوسٹ آفس جو کبھی محنت اور دیانت کی علامت ہوا کرتا تھا،برے حال میں ہے۔
ایک وقت تھا منی آرڈر سے اپنے عزیزوں کو رقم کی ترسیل پوسٹ آفس سے ہی ہوتی تھی۔ پوسٹ مین کے ذریعے گھر تک پہنچتی تھی ۔کبھی سنا نہیں،ڈاکیہ رقم لے کر بھاگ گیا ہو۔ اب اُسے پاکستان پوسٹ کا نام دیا گیا ہے اور اس کیلئے خریداری میں اربوں کا گھپلا ہوا، پچھلے پانچ سال میں۔ نیٹو کے کنٹینروں کے ذریعے بھی ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ تعلیم یوں ہی کونسی قاعدے سے دی جا رہی ہے، وہاں بھی بھوت…گھوسٹ …اسکول موجود ہیں یعنی اسکول موجود نہیں ہیں ،صرف کاغذات پر ہیں اور دیگر ادارے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، نیشنل انشورنس کارپوریشن، نیشنل لاجسٹک سیل اور پتہ نہیں کتنے۔ آسان راستہ یہ ہے کہ ان کے آگے وغیرہ وغیرہ لکھ دیا جائے،اندازہ ہو جائے گا، کوئی بھی ادارہ نہیں جہاں بدعنوانی نہ ہو،لوٹ کھسوٹ نہ ہو،اقربا پروری نہ ہو۔ اب یہ کس کی ذمّہ داری ہے یا تھی کہ ان اداروں کو بدعنوانیوں سے پاک کریں ،چلیں بالکل پاک نہ کریں، وہ آپ کے بس کا نہیں، کم تو کریں، انتہا درجے کی لوٹ مار سے کچھ تو نیچے لائیں۔ کچھ نہیں ہوا،جاتے جاتے جو کچھ ہوا وہ یہ کہ جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا کر چلتا بنا۔ یہ جو آخری دنوں میں قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے اپنے لئے خصوصی مراعات منظور کیں ،انہیں اس کا حق تھا کیا؟یہ ایک سوال ہے جو سندھ کے وزیر اعلیٰ ،اب سابق، سید قائم علی شاہ سے بھی پوچھا جانا چاہئے اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک سے بھی ۔
فہمیدہ مرزا کروڑ پتی ہیں ،ان کے بتائے ہوئے اثاثوں کے مطابق ،ممکن ہے اصل میں ارب پتی ہوں ،شاہ صاحب بھی کوئی اتنے غریب نہیں کہ فون کے لئے دس ہزار روپے ماہانہ انہیں ہماری آپ کی جیب سے درکار ہوں اور کلرک بھی اور دوسرا عملہ بھی ،سب سرکاری خرچ سے تاحیات۔ رحمن ملک بہت بڑے کاروباری ہیں۔کل وہ اگر ایف آئی اے کے ایکٹنگ ڈائریکٹر جنرل تھے تو کیا ہوا ،اب توان کا کاروبار دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلا ہوا ہے،فوڈ چین،تیل،مواصلات اور بھی بہت کچھ ۔انہیں بھی مراعات درکار ہیں ،ایک حکم نامہ جاتے جاتے ان کی وزارت سے بھی جاری ہوا ،اس مقصد کے لئے۔ حضرت ابو بکر صدیق (اللہ ان کی قبر مبارک کو نور سے بھر دے )کو میٹھا کھانے کی خواہش ہوئی۔ بیت المال سے امیر المومنین کا جو وظیفہ مقرر کیا گیا تھا وہ بس دو وقت کی روٹی کے لئے کافی تھا، میٹھا اس میں کہاں سے آتا ۔ان کی اہلیہ نے مگر ایک دن ان کے سامنے کچھ میٹھا رکھا۔صدیق اکبر نے پوچھا یہ کہاں سے آیا؟
اہلیہ نے روزانہ کے راشن میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر میٹھا پکایا تھا، یہی بتا دیا۔ یہ چودہ سو سال پہلے کی بات ہے،آس پاس رومی اور ایرانی حکمران شاہانہ زندگی گزارتے تھے،عوام سے حاصل کئے ہوئے پیسے سے،ہمارے آج کے حکمرانوں کی طرح۔ امیر المومنین نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ وظیفہ روزانہ کی ضروریات سے زیادہ ہے اور روز جتنا بچا کر ان کے لئے میٹھا بنایا گیا تھا، اپنے وظیفہ میں سے کم کر دیا۔ یہ بات ایک پرانی کتاب میں پڑھی تھی،آج تک یاد ہے۔ پرانی کتابوں میں علم کے بہت سے موتی ہیں انہیں پڑھتے پڑھاتے رہنا چاہئے۔ یوں بھی نئی یا پرانی کی بنیاد پر کتابوں کو مسترد کیا جا سکتا ہے نہ قبول، اس کے لئے معیار دوسرے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اگر اِن پُرانی کتابوں کو پڑھا ہوتا تو ان پر کچھ تو اثر ہوتا۔ انہیں پتہ ہوتا کہ جو مراعات اور سہولتیں یہ عوام کے پیسے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ ان کا حق نہیں ہے۔ عوام کو کیا صرف اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے انہیں منتخب کیا تھا مگر ان کا مقصد تو کچھ اور تھا ، وہ تو عوام کی فلاح و بہبود کی آس لگائے بیٹھے تھے اور ان سب کے لئے جو کسی بھی مملکت کا مقصد ہوتا ہے مگر ان میں سے تو کچھ نہیں ہوا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کتنے کام ہوئے،ہاتھ کی انگلیوں پر گنیں تو کچھ انگلیاں بچ رہیں گی۔لوٹ مار کی کہانیاں، بدعنوانیوں کے قصے، اقربا پروری کی داستانیں بیان کریں تو اتنی انگلیاں کہاں سے لائیں جو اس تعداد کے لئے پوری پڑیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے ان کے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو ہاتھ جیب سے نکلتا ہی نہیں ، حساب کتاب میں اوپر نیچے کرنا تو ہوتا ہی ہے، ہزاربہانے بھی بناتے ہیں۔ اب تو حقائق قوم کے سامنے ہیں۔ان میں سے کتنوں نے کتنا ٹیکس ادا کیا۔اس ٹیکس کا مراعات سے مقابلہ کریں تو اندازہ ہو گا،دیا تو برائے نام،اگر دیا تو،اور لیا دونوں ہاتھوں سے بھر کے۔ایک توقع تھی کہ چند دنوں میں ہونے والے انتخابات حالات بہتر کرنے میں مدد دیں گے۔امید کا یہ چراغ بھی ٹمٹما رہا ہے۔ بس62, 63 کا ہنگامہ اٹھا،اسی میں سب کچھ چھپ گیا۔ باقی سب، ٹیکس اور قرض نادہندگا ن اور وہ جن کو چھلنی کے اوپر رہنا تھا اس میں سے گزر گئے۔ اب وہ انتخابات لڑ یں گے،ان میں سے خاصے کامیاب بھی ہوں گے اور پانچ سال بعد جب اپنی مدّت پوری کر کے وہ جا رہے ہوں گے تو انہیں بھی تاحیات مراعات چاہئے ہوں گی، عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع کئے ہوئے قومی خزانے سے۔ افراط و تفریط ․․․افراتفری․․․ آج بھی ہے،کل بھی ہو گی، ہوتی ہی رہے گی مگر مدّت تھوڑی ہی ہے، سب راج پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔
تازہ ترین