• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن احمد

ایک دن اکبر بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے کہا ’’بتائو دنیا میں اندھے زیادہ رہتے ہیں یا آنکھوں والے؟‘‘ ملا دوپیازہ نے بتایا کہ ’’حضور اندھے زیادہ رہتے ہیں۔‘‘ اکبر نے تعجب سے کہا ’’اس کا ثبوت ؟‘‘ ملا دو پیازہ نے جواب دیا۔ ’’عالی جاں! دس روز کی مہلت دیں تو ثبوت دے سکتا ہوں۔‘‘ اکبر بادشاہ نے مہلت دی۔ ملا دو پیازہ نے دوسرے ہی روز ایک چوراہے پر بیٹھ کر چرخے کے ذریعے بان بٹنے شروع کردیئے اور اپنے ہمراہ ایک منشی کو بٹھالیا جس کے پاس قلم دوات اور رجسٹر تھا۔ اب جو بھی راہ گیر ادھر سے گزرتا ملا دو پیازہ کو بان بٹنے دیکھ کر کہتا۔ ’’ہیں… ملا دو پیازہ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘

ملا دو پیادہ منشی کو حکم دیتے ’’لکھو اندھوں میں‘‘اور منشی اس کا نام معلوم کرکے اندھوں کی فہرست میں لکھ دیتا۔ اس طرح شام تک راہ گیر آتے رہے اور ملا دوپیازہ کو دیکھ کر تعجب سے پوچھتے کہ ’’یہ کیا کررہے ہیں‘‘ اور ملا دوپیازہ کے حکم سے منشی اس راہ گیر کا نام اندھوں کی فہرست میں شامل کردیتا۔ دن بھر میں صرف دو آدمی ایسے آئے کہ انہوں نے بان بٹنے دیکھ کر کہا ’’ملادو پیازہ بان کیوںبٹ رہے ہیں؟‘‘ ان کو آنکھوں والوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔

دوسرے روز اتفاق سے اکبر بادشاہ ادھر سے گزرے اور حیرت سے سوال کیا ’’ملا دو پیازہ یہ کیا کررہے ہیں؟‘‘ ملا نے منشی کو حکم دیتے ہوئے کہا ’’لکھو اندھوں میں۔‘‘

اگلے ہی روز ملا دو پیازہ نے دونوں فہرستیں اکبر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیں۔ جب اپنا نام اور اپنے تین رتنوں کا نام بھی اندھوں کی فہرست میں دیکھا تو تیوریاں چڑھا کر کہا ’’میرا نام اندھوں کی فہرست میں کیوں ہے؟‘‘ ملا دو پیازہ نے دست بستہ بڑے ادب سے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ ’’حضور جب آپ دیکھ رہے تھے کہ ملا دو پیازہ بان بُن رہا ہے پھر بھی اس سے پوچھاگیا کہ یہ کیا کررہے ہو تو کیوں نہ اندھوں کی فہرست بڑھادی جاتی۔‘‘ یہ سن کر اکبر بادشاہ شرمندہ ہوکر ہنس پڑے۔​

تازہ ترین