مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہےکہ حکومت ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں تیسرا بل بھی پاس کرانا چاہتی تھی، یہ تیسرا بل بہت خوفناک تھا۔
اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت نےکہا کہ 4 بل ہیں جنہیں منظور کرانا چاہتے ہیں، 3 بل ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، ایک بل نیب سے متعلق ہے جسے پاس کرانا چاہتے ہیں، حکومت نے کہا کہ چاروں بل اکھٹے پاس کرانا چاہئیں، ایک بل سیکیورٹی کونسل سے متعلق آج پاس ہوا، بل میں ہم نے ترمیم پیش کی، بل میں پرسن کی تعریف میں ترمیم کی، دونوں بلز کا فیصلہ 20، 25 منٹ میں ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک بل معاشی دہشت گردی کے حوالے سے تھا، اتنا خوفناک بل میں نےاپنی زندگی میں نہیں دیکھا، ایک شہری کو 90 دن تک لاپتہ کریں، مزید 90 دن رکھ لیں، وہ عدالت بھی نہیں جا سکتا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کر رہا ہے، یہ بل اس سےبھی خطرناک تھا، ہم نے پوچھاکہ اس سے ایف اے ٹی ایف کے کون سے تقاضے پورے ہوتے ہیں، حکومت ہمیں کوئی جواب نہ دے سکی۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ جس نیب مسودے کا حکومت دعویٰ کر رہی ہے وہ ہمارا نہیں ہے، ہم نے پوچھا ایف اے ٹی ایف سے یہ بل کیسے متعلق ہے تو کہا گیا کہ غلطی ہو گئی، ہم نے پوچھا بل بنایا کس نے تھا تو اس کا جواب آج تک نہیں ملا، جو ایف اے ٹی ایف کی ضرورت تھی وہ 2 بلز 25 منٹ میں منظور ہو گئے، جونیب قانون پیش کیا گیا وہ چیئرمین نیب کو توسیع دے کر بلیک میل کر کے استعمال کرنے والا تھا، پھر نیب قانون سے توسیع والی شق نکال دی گئی کہ غلطی ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ حکومت اپنےلوگوں کو بچانا، جبکہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے، جو ریفرنس نیب دائر کرے گی اس پر 14 دن تک بات نہیں کر سکتے، ہم نے پوچھا کہ کون سے قانون میں ایسا ہوتا ہے، فیصلہ ہوا کہ ایک کمیٹی بیٹھے گی، جو نیب ترمیمی قانون پر شق وار غور کرے گی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قانونِ شہادت سے متعلق ایک شق پر بھی اعتراض کیا، اعتراض کیا کہ 14 دن میں ریفرنس پر اعتراض نہ کرنے پر وہ الزامات درست سمجھے جائیں گے، پھر کمیٹی بنانے پر اتفاقِ رائے کیا گیا، حکومت کی طرف سے 3 وزراء اور 2 مشیر مشاورتی کمیٹی میں شامل کیے گئے، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے تین تین اراکین کمیٹی کا حصہ ہیں، پیپلز پارٹی کی طرف سے شیری رحمٰن، نوید قمر، فاروق نائیک تھے، نون لیگ کی طرف سے خواجہ آصف، رانا ثناء اللّٰہ اور میں شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر کے گھر پر ملاقات میں شق وار بل پر مشاورت شروع کی گئی، فاروق نائیک نے اپنے نوٹس دیے جس میں مختلف مشاورتوں سے متعلق نکات تھے، میں نے حکومت کو تین بار یہ بات بتائی، فاروق نائیک کو مزاحیہ اندازمیں کہا کہ کل یہ نوٹس لہرا کے اپوزیشن کا قانون نہ کہہ دیا جائے، حکومت نیب سے متعلق ایک مسودہ لائی، ہم نے کہا کہ یہ مسودہ اپنے لوگوں کو این آر او دینے کے لیے ہے۔
میٹنگ میں فاروق نائیک نوٹس بناکرلائےتھے، اس وقت بھی وزراء کو کہا کہ یہ ہمارا ڈرافٹ بل نہیں، فاروق نائیک نے مزاق میں کہا کہ حکومتی اراکین یہ نہ کہیں کہ اپوزیشن رعایتیں مانگ رہی ہے، نوٹس سپریم کورٹ کی آبزرویشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق تھے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی بل میں شخص کی تعریف سے متعلق ترمیم دی جو آج منظور ہوئی، دوسرے بل اقوام متحدہ والے میں بھی ترمیم دی جو حکومت نے مان لی، ہم نے 15 ترامیم دیں جو سپریم کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اگلے دن مشاورت کا کہا لیکن میٹنگ تاخیر کے باعث بروقت نہ ہوئی، میٹنگ ساڑھے 3 بجے تاخیر سے شروع ہوئی، میں نے کہا ہم حکومتی ترامیم نہیں مانتے، اگر آپ نیب قانون میں ترامیم نہیں کرنا چاہتے ہیں تو قانون قائم رکھیں۔
نون لیگی رہنما نے کہا کہ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نیب قوانین میں ترامیم کرنا چاہتے ہیں، ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ترامیم کا اختیار ہے؟ انہوں نے کہا بالکل ہے، حکومت سے 2 بار کہا کہ نیب قانون کا ایف اے ٹی ایف قوانین سے کوئی تعلق نہیں، 115 ترامیم پر مشتمل ترامیم تھیں جو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مشتمل تھی۔
یہ بھی پڑھیئے: شاہد خاقان کے وارنٹِ گرفتاری جاری
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ کل واپس آئیں گے اور بتائیں گے کہ کون سی ترامیم مانی جائیں گی، اگلے دن 4 حکومت کے لوگ آئے اور کہا کہ وزیرِ اعظم ان ترامیم کو نہیں مان رہے، ہم نے کہا کہ ہم ترامیم نہیں مان رہے، وہ سمجھتے ہیں کہ نیب کا قانون رکھنا ہے تو رکھیں، انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ساتھ نیب نہیں چل سکتا، میں نے کہا کہ جو ہماری پارٹی کا مینڈیٹ ہے ہم اس کے حساب سے ہی بات کریں گے۔
شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ یہ غیر رسمی کمیٹی تھی، کمیٹی کی بات پبلک میں نہیں کرنی چاہیے لیکن میں مجبور ہوں، حکومتی وزراء نے جو باتیں عوام کے سامنے کیں ان میں ایک بھی سچ نہیں تھا، اگر وفاقی وزیر جھوٹ بولنا شروع کر دیں تو ملک کا کیا بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا کہ نیب کا بل لے کر آئیں، اگر حکومت نہیں مانتی تو پھر سب گھر چلے جاتے ہیں، جب اسمبلی میں بل آئے تو دونوں کو پارلیمنٹ سے پاس کروا دیا، اب سینٹ میں بھی بل پاس ہو جائیں گے، اسپیکر کے گھر والی باتیں وزراء کے بیانات کے بعد مجبوراً کر رہا ہوں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان وزراء کے منہ سے سچ سامنے نہیں آیا، اگر یہ سب لوگ جھوٹ بولیں گے تو افسوس ہی ہوگا۔
سابق وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ حکومتی وزراء نے کہا کہ وزیرِاعظم یہ ترامیم نہیں مان رہے، ہم نے کہا نہیں مان رہے تو ٹھیک ہے پھر بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اللّٰہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جھوٹ بولنے والوں پر لعنت ہے،آج بھی یہی کہتا ہوں کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ کی لعنت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے جو ترامیم دیں نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر ان کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں، جن مشیروں نے استعفیٰ دیا، وزیرِاعظم ان کا دفاع کریں جو انہیں لائے تھے، آل پارٹیز کانفرنس عید کے بعد ہوگی۔
اس موقع پر خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارا حکومت سے پچھلے 24 گھنٹوں میں کوئی رابطہ نہیں ہوا، ہمارا حکومت سے جھگڑا نہیں ہے، آج کل ٹمپریچر ویسے ہی زیادہ ہے۔