• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:طاہر انعام شیخ۔۔۔ گلاسگو
حکومت پاکستان نے پاکستانی اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان، سرکریک، جونا گڑھ اور مناودار کو سرکاری طور پر پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے، لیکن پاکستان سے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرنے کے ساتھ اس بات کی توصیح بھی کردی ہے کہ اس متنازع علاقے کے بارے میں آخری فیصلہ کشمیری عوام ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کریں گے۔ اس نئے نقشے کی کابینہ نے بھی منظوری دے دی ہے اور یہی نقشہ اب پاکستان کے تمام اداروں اور کالجوں، سکولوں میں بھی استعمال ہوگا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نقشے کو آئین پاکستان میں شامل کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے بھی اس کی منظوری حاصل کی جائے اور امید ہے کہ قومی مفاد کے اس مسئلہ پر حکومت و اپوزیشن ایک صفحے پر ہوں گے۔ بھارت نے گزشتہ سال جس طرح خود اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35Aکو تبدیل کیا تھا اور پھر بعدازاں بھارت کا نیا نقشہ جاری کیا، جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی حیثیت دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر، گلگت اور بلتستان کو بغیر کسی قانونی جواز کے بھارت کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کی اس چال کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے وہاں بھارت کی نو لاکھ فوج ہر قسم کے مظالم ڈھا رہی ہے، ہزاروں افراد کو صرف اپنے حق آزادی کو طلب کرنے کے جرم میں شہید کیا جاچکا ہے، کرفیو میں توسیع کے لئے اب کورونا کو جواز بنایا گیا ہے۔پاکستان نے اب پوری دنیا کے سامنے بھارت کے نقشے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اپنے اس دعوے کو دوبارہ پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ایک اکثریتی مسلم ریاست ہونے کے باعث کشمیر واضح طور پر پاکستان کا حصہ ہے، جس کے تمام قدرتی راستے اور دریا پاکستان آتے ہیں۔لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی مہاراجہ کشمیر کی طرف سے الحاق کی درخواست صرف اسی شکل میں منظور کی تھی کہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے لیکن بھارت نے اپنی شکست کو یقینی سمجھتے ہوئے ہمیشہ رائے شماری کی مخالفت کی اور اب 370اور 35A کو ختم کرکے وہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کررہا ہے تاکہ کشمیریوں کو بھی فلسطنیوں کی طرح وطن بدر کردیا جائے۔ بھارت نے کشمیریوں پر 70 سال سے زیادہ کے عرصے تک ہر قسم کے مظالم کرکے دیکھ لیا ہے لیکن اس کے ہر ظلم پر تحریک آزادی کم ہونے کے بجائے تیزی اختیار کرتی گئی اور 1989ء کے بعد تو اس نے نہتے کشمیری عوام پر تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے ہیں۔ ابھی حال ہی میں 2016ء میں برہان الدین وانی کی شہادت سے جو نئی تحریک شروع ہوئی ہے اس نے بھارت کے اوسان خطا کردیئے ہیں اور اسے یہ تحریک ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ 5 اگست 2019ء کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لئے ہزاروں افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، ایسے تمام سیاسی رہنمائوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جو ماضی میں بھارتی حکومت کے ساتھی تھے اور ان میں تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں اور وہ بھارتی حکومت کا ساتھ دینے کی غلطی پر پچھتا رہے ہیں۔ یورپی یونین، امریکہ اور دیگر اقوام بھی اب بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر تنقید کررہے ہیں، اب اگر بھارت علاقے میں امن کا خواہشمند ہے اور یہ امن خود اس کے اپنے مفاد میں زیادہ ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوںپر فوری عمل کرتے ہوئے وہاں رائے شماری کرائے، حکومت پاکستان نے ہر سیاسی اور سفارتی محاذپر کشمیریوں کے حق خودارادی کا ساتھ دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔پاکستان کا نیا نقشہ جاری کرنے سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر اجاگر ہوگا، اور ان کی آواز تمام دنیا کے دارالحکومتوں تک پہنچے گی، سفارتی طور پریہ ایک اچھا اور کامیاب قدم ہے۔
تازہ ترین