بالی وڈمیں ہر دور میں ڈانسنگ ہیروز نظر آئے، کبھی شمی کپور کی صورت تو کبھی رشی کپور، متھن چکرورتی، کمل پاسن اور گوویندا وغیرہ کے روپ میں، جب کہ ہمارے سینما کی پہلی تین دہائیاں ڈانسنگ ہیروز کے وجود سے خالی رہیں۔ اتنا ضرور تھا کہ 50 کی دہائی میں متعارف ہونے والے سید کمال گانوں کی فلم بند میں ہلکا پھلکا جزوی سا رقص کرلیا کرتے تھے۔ یا پھر ان کے بعد آنے والے ہیرو وحید مراد اکثر گانوں میں ہلکا پھلکا، لیکن نہایت کمپوزڈ اور سلیقے کے ساتھ رقص کرتے نظر آتے تھے، ایسا کم کم فلموں میں ہوتا تھا،لیکن فلم بینوں کو تو کسی بھرپور ڈانسنگ ہیرو کا انتظار تھا۔
کیوں کہ ہمارے تین بڑے ہیروز محمد علی، ندیم اور شاہد فنِ رقص سے قطعی نابلند تھے۔ محمد کی کسی حد تک دیہاتی رقص بہتر انداز میں کرلیا کرتے تھے۔ مغربی انداز کا رقص ان کے بھی امکان سے باہر تھا۔ جب کہ بھارت کے تو تمام ہیروز گزارے لاق رقص کرنے میں ہلکی پھلکی مہارت ضرور رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ وحید مراد کے بعد غلام محی الدین نے بھی اکثر فلموں میں رقص کرنے کی سعی کی، لیکن انہیں عوامی سطح پر رقص کے تناظر میں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔80 کی دہائی میں فیصل الرحمن کی شان دار آمد اور ان کی ہر طرح کے رقص میں بھرپور مہارت اور دل کش انداز نے دُھوم مچادی۔ مبصرین نے فیصل الرحمن کو پاکستان کا پہلا بہترین ڈانسنگ ہیرو تسلیم کیا۔
فیصل کے بعد آنے والے ہیروز میں اسماعیل شاہ وہ فن کار تھے کہ جن کی رقص میں مہارت فیصل سے بھی کچھ بڑھ کر تھی۔ شاید ان کا یہی وصف تھا کہ وہ اپنی ابتدائی چند فلموں کی ریلیز کے بعد ہی فلم میکرز کی بھرپور توجہ کا مرکز بن گئے۔ ممتاز علی خان کی ’’باغی قیدی‘‘ ان کی ڈیبیو فلم تھی،جس میں ان کا کردار ڈانسنگ نہیں بلکہ فل ایکشن تھا۔ یہ فلم دراصل فیصل قیصر کی فلم ’’عجب خان‘‘ کاری میک تھی،جس میں اسماعیل شاہ کو لالہ سدہیر کے ادا کردہ کردار کی ادائیگی کی ذمے داری ملی اور اس میں شک نہیں کہ اسماعیل شاہ نے بہت محنت اور تندہی سے اس کردار کو نبھایا۔ فلم میں ان کی ہیروئن لبنی خٹک تھیں۔
باغی قیدی نے باکس آفس پر حوصلہ افزاء بزنس حاصل کیا، لیکن اسماعیل شاہ کی بہ طور ڈانسنگ ہیرو بھرپور شناخت حیدر چوہدری کی سپرہٹ پنجابی فلم ’’دُلاری‘‘ کے توسط سے بنی۔اداکارہ ستارہ کے ساتھ ان کی پرفارمنس نہایت شان دار اور معیاری رقص پر محیط تھی۔ حیدر چوہدری ہی کی رومانی نغمہ بار دیومالائی کہانی پر مبنی فلم ’’ناچے ناگن‘‘ میں وہ نادرہ کے ہیرو تھے ۔وہ ’’شیش ناگ‘‘ تھے اور نادرہ ’’شیش ناگن‘‘ فلم کے ہر گیت میں نادرہ کے ساتھ وہ ناگ رقص بڑی مہارت اور خُوب صورتی سے کرتے نظر آئے۔ علاوہ ازیں ان کی پرفارمنس کے تناظر میں بھی ناچے ناگن ایک یاد رہ جانے والی فلم ثابت ہوئی۔
بس یہی وہ فلم تھی کہ جس نے اسماعیل شاہ کو عروج مقبولیت اور عوامی پسندیدگی کے سبب سے اونچے پائیدان پر لاکھڑا کیا۔ حیدر چوہدری کی تو وہ گڈ بک میں شامل ہوگئے اور ان کی اگلی ہر فلم کا جزو لازمی ٹہرے۔ ’’ناچے ناگن‘‘ 25؍ستمبر 1989ء کو منظر عام پر آئی اور پورے پاکستان میں شان دار کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ اسماعیل شاہ کی دیگر فلموں پر بات کرنے سے قبل ہم اپنے ریڈرز کو اسماعیل شاہ کے حوالے سے کچھ بنیادی معلومات بھی شیئر کرلیں۔ اسماعیل شاہ کا اصل نام سید محمد اسماعیل شاہ تھا۔
22؍مئی 1962ء پشین بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔ کوئٹہ ریڈیو اور پھر کوئٹہ ٹی وی سے وابستہ ہوئے۔ اداکاری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انہیں اپنے فنکارانہ جوہر دکھانے کے لیے کھلا اور وسیع میدان اس وقت میسر آیا کہ جب نسیم حجازی کے تاریخی ناول پر ڈراما سیریل ’’شاہین‘‘ میں انہیں بدر بن مغیرہ کے بھاری بھرکم اور چیلنجنگ رول کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ ڈراما سیریل 1980ء میں پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوا اور اپنی جملہ خوبیوں کے سبب کلاسیک اسکور کا حصہ بن گیا۔
1986ء کی رلیز ’’باغی قیدی‘‘ نے فلمی صنعت میں ان کی آمد کا وسیلہ بنی پھر ’’دلاری‘‘ اور ’’ناچے ناگن‘‘ نے انہیں مستند ڈانسنگ ہیرو کی حیثیت سے رجسٹرڈ کروایا۔ 1987ء کی ریلیز ہدایت کار وزیر علی کی ’’لو ان نیپال‘‘ میں وہ لیجنڈری فن کارہ شبنم اور اپنے فلمی ہم عصر اظہار قاضی کے فرزند کے روپ میں جلوہ گر ہوئے اور خوب صورت پرفارمنس پیش کی۔
اسماعیل شاہ کا فنی کیریئر محض 8 سال پر محیط ہے، لیکن ان 8 برسوں میں ان کی کردار نگاری سے آراستہ ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 70-75 کے قریب ہے۔ باکس آفس پر ان کی بہت کم فلموں نے قابل ذکر کام یابی حاصل کی اور ایسی فلموں میں دلاری، ناچے ناگن، کالے چور، مکھڑا، چاہت اور تین یکے تین چھکے … نمایاں کام یاب فلمیں رہیں۔ داود بٹ کی ’’تحفہ‘‘ خُوب صورت اور معیاری فلم تھی جس میں اسماعیل شاہ نے وہی کردار ادا کیا جو انجمن میں وحید مراد یا دلاوے سودے میں اعجاز درانی کرچکے تھے۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ اسماعیل شاہ کے حصے میں متعدد فلمیں ایسی آئیں کہ جو ماضی کی فلموں کا ری میک تھیں۔ لیکن اسماعیل شاہ نے ایسی فلموں میں ماضی کے فن کاروں کے ادا کردہ کرداروں کو دہراتے ہوئے انصاف کیا۔یہ خُوب صورت اور قابل فن کار حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب 29؍اکتوبر 1992ء کو انتقال کرگیا۔