موٹربائیک پر سوار شخص نے بائیک کی رفتار کم کی، پوری گردن موڑ کرسارہ کی طرف دیکھا اور غلیظ سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک اوچھا سا فقرہ کسا ۔اُسے کسی کا خوف نہیں تھا،وہ موٹر بائیک کو ممکنہ حدتک ہلکی رفتار سے چلاتا ہوااُ س کے گرد چکّر لگانے لگا۔ صبح کا وقت ہونے کے با وجود اُس گلی میں سنّاٹا تھا اور وہ تو جیسے سُن ہی ہو گئی ، قدموں کو جیسے زمین نے جکڑ لیا تھا۔سارہ کی حالت اتنی غیر ہو چُکی تھی کہ اگر سانس لینا ارادی فعل ہوتا، تو وہ سانس بھی نہ لے رہی ہوتی۔
چند لمحے پہلے وہ کتنی مگن، خوش باش گھر سے کالج جانے کے لیے نکلی تھی کہ گلی کے اختتام پر مرکزی سڑک تھی، جہاں سےاسے کالج کے لیے بآسانی بس مل جاتی تھی۔ لیکن آج وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ انسان نما جانور بس چند لمحوں میں اس سے اس کا سارا سرور اور اعتماد چھین لے گیا ۔اچانک گلی کے دوسرے سِرے سے دو بڑی عُمر کے افراد باتیں کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے تو وہ تیزی سے بائیک بھگا لے گیا اور سارہ بمشکل اپنی جگہ سے ہلنے کے قابل ہوئی۔ وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی واپس گھر کی جانب مُڑی، لیکن اُسے محسوس ہوا جیسے یہ ایک کے بعد دوسری شکست ہو گی،لہٰذا اس نے واپس گھر جانے کا ارادہ ترک کرکے کالج کی راہ لی ۔
کالج پہنچ کر بھی اس کے حواس بحال ہونے میں بہت وقت لگا ۔بائیک والا ایک ڈراؤنی فلم کی طرح پورا دن اس کے دل و دماغ میں سمایا رہا۔ بالآخرسارہ نے اپنی پسندیدہ ترین اور ہر دل عزیز ٹیچر،مِس فاطمہ سے اس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے پاس اسٹاف رُوم چلی گئی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے کہا ’’مِس!مجھے تو میرے حجاب نے بھی محفوظ نہ رکھا۔‘‘، وہ اسلامیات کی ٹیچر، مس فاطمہ کے سامنے بیٹھی سارا واقعہ بیان کر رہی تھی۔’’اب آپ ہی بتائیں، مَیں کیا کروں؟ کیا فائدہ اس حجاب کا…‘‘اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ مِس نے اسے پانی پلایا اور فقط اتنا ہی کہا ’’سارہ! میرے لیکچر کا وقت ہو گیا ہے، بیٹا ! ہم اِن شاء اللہ اس موضوع پہ جلدہی بات کریں گے۔‘‘ چُھٹّی کا وقت قریب آتے آتے مختلف سوچیں اس کے دماغ میں چلنے لگیں ۔
سارہ کو لگ رہا تھا جیسے اس کا سر پھٹ جائے گا۔ گھر کے درازے پر پہنچنے تک صدمہ شدید غصّے کی شکل اختیار کر چُکا تھا، گھنٹی پہ ہاتھ ایسے رکھا،جیسے ہمیشہ سے وہیں رکھا ہو۔ ’’کیا مسئلہ ہے بھئی؟ کون ہے؟ گھنٹی پر ہاتھ رکھ کے بھول گئے ہو کیا؟ ‘‘سارہ کے چھوٹے بھائی ،سعد نے جھنجلاتے ہوئے دروازہ کھولا۔’’آپی تم؟کیا ہو گیا، سب خیریت تو ہے؟ اتنے غصّے میں کیوں ہو؟‘‘’’ پیچھے ہٹو‘‘،سارہ نے کوئی جواب دئیےبنا اسے دھکیلا اور تنتناتی ہوئی گھر میں داخل ہو گئی۔ ’’ارے سارہ!کیا ہوا بیٹا؟‘‘گول پیڑا گھماتی ہتھیلیاں ساکت ہو گئیں کہ ماؤں کے دل کے تار تو جیسے اولاد کے دِلوں سے جُڑے ہوتے ہیں۔ پیڑا وہیں چھوڑ کر سیدھی سارہ کے پاس آئیں ، جو غصّے میں اسکارف کی پِنز کھول رہی تھی۔ اس کی حالت سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے سعد بظاہر ٹی وی کی طرف متوجّہ ہو گیا تھا ۔’’ سنبھالیں یہ عبایا ، اسکارف ۔‘‘اس نے عبایا اور اسکارف اٹھا کر دُور پھینکا ۔’’ جن کو بد تمیزی کرنی ہوتی ہے ، وہ عبایا ،اسکارف نہیں دیکھتے ۔‘‘ اس کا لہجہ غصّے اور بے بسی کا عجیب امتزاج تھا۔ ’’امّی! ہم حجاب خوامخواہ ہی کرتے ہیں۔‘‘اب اس کی آواز رندھ چکی تھی۔
امّی کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اُن کی بٹیا رانی کے ساتھ کس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے ۔ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ انہوں نے اسے گلے لگایا۔’’ آج سے پہلے تو یہ عبایا، یہ حجاب مجھےاپنا محافظ محسوس ہوتا تھا امّی! ‘‘ اب الفاظ سے زیادہ ہچکیاں سُنائی دے رہی تھیں ۔’’ حجاب اور عبایا اب بھی تمہارا محافظ ہے میری بچّی۔‘‘ وہ یقین دلاتے لہجے میں گویا ہوئیں۔ ’’ مسئلہ یہ ہے میری جان کہ ہم نے حیا اور حجاب کو صرف ایک کپڑے کے ٹکڑے تک محدود کر دیا ہے، یہ کپڑے کا ٹکڑا تو استعارہ تھا حیا کے مکمل نظام کا۔ ہم نے سارے لوازمات چھوڑ دئیے اور صرف اسی پہ سارا بوجھ ،تمام ذمّے داری ڈال دی اور باقی پورے نظام کو شتر بے مہار کی مانند چھوڑ دیا ، بس یہی ہم نے غلط کیا۔ حجاب کسی شئے کا نہیں، یہ توپورے نظام کا نام ہے۔ یاد رکھو!تمہارا حجاب اب بھی تمہارا محافظ ہے، بس اسے مکمل نظام بننے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
دوسری جانب سعد نے لب بھینچتے ہوئے ٹی وی اسکرین پر نگاہ ڈالی، جہاں چائے میں استعمال ہونے والے دودھ کے اشتہار میں مرد وعورت زو ر و شور سے ناچ رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ’’ ٹھیک کہتی ہیں امّی، حیا اور حجاب تو ایک پورے نظام کا نام ہے اور اس پہ ہر طرف سے ضرب پڑ رہی ہے۔‘‘شام ہو چکی تھی اور اب سارہ کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔ چائے پینے کے دوران اس نے اخبار اٹھایا، پی ٹی اے کی جانب سے اطلاعِ عام تھی کہ ’’غیر رجسٹرڈ وی پی این کے ذریعے چلنے والی ویب سائٹس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘ وہ تلخی سے مُسکرائی اورکچھ عرصہ قبل پڑھی خبر ایک دَم آنکھوں کے سامنے آگئی ،جس میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی مواد دیکھے جانے کے تناسب میں بے پناہ اضافہ بتایا گیا تھا۔
اس نے بےزاری سے اخبار رکھا اور اپنی توجّہ امی کی جانب مرکوز کردی، جو فون پہ سامعہ خالہ سے بات ختم کر کے اب اُسی کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔’’ کیا ہوا امّی؟‘‘ اُسے امّی کچھ افسردہ محسوس ہوئیں ۔’’کچھ نہیں ،سامعہ کا فون تھا، کہہ رہی تھی کہ شادی کے دعوت نامے میں منہدی کا کارڈ رکھنا بھول گئی ، جانے کس الا بلا تیاری کا کہہ رہی تھی، کون سی تھیم اور کون سے گانے پہ ڈانس، توبہ…‘‘ ’’ارے سعدکی ماں کہاں ہو؟‘‘شاکرہ تائی ہمیشہ دروازے ہی سے آوازیں دیتی آیا کرتی تھیں ۔ یہ سارہ کےابّا کی دُور پرے کی رشتے دار تھیں، لیکن خیر خبر ہر ایک کی رکھتیں۔
امّی اور سارہ دونوں ہی ان کے استقبال میں کھڑی ہو گئیں۔’’ آئیے آئیے شاکرہ بھابھی !کیسی ہیں ؟ ‘‘’’بھئی ،ہم تو اللہ کا شکر ٹھیک ہیں، ایک دَم فرسٹ کلاس ۔‘‘سارہ جلدی سے ان کے لیے ٹھنڈا پانی لے کر آئی۔’’ اور سنائیں، شاکرہ بھابھی کیا حال احوال ہیں؟آپ کی بہو کیسی ہے؟ وہ توشرعی پردہ کرتی ہےناں ماشاء اللہ؟ ‘‘ ’’ بہت اچھی بچّی ہے۔ خوش ہے ماشا ء اللہ ، بہت خوش ۔‘‘’’ شاکرہ تائی! بھابھی کو مشکل تو بہت ہوتی ہو گی ، میرا مطلب ہے گھر میں دیوروں کے ساتھ باپردہ رہنا۔‘‘سارہ کو اپنی دوست رعنا یاد آگئی، جو سارا دن منہ لپیٹے بڑی سی چادر لیے باورچی خانے کے کام نمٹاتی رہتی تھی۔’’ نہیں بھئی ، مَیں نے تو اپنے سارے لڑکوں سے کہہ دیا ہے کہ بھابھی جب کمرے سے باہر یا باورچی خانے میں مصروف ہو ، تو تم سب اپنے اپنے کمروں میں رہنا۔ باہر آؤ تو کھنکھار کے آنا تاکہ وہ دوپٹا وغیرہ درست کر لے۔ شادی ہو کے آئی ہے بچّی ،کوئی کالے پانی کی سزا تھوڑی ہے۔‘‘ وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولتی سارہ کو بہت پیاری لگیں ۔ اور اسے امّی کی بات یاد آگئی’’ حجاب اور حیا تو ایک نظام کا نام ہے‘‘ ، واقعی اس نظام کو قائم کرنا تو ہر ایک کی ذمّے داری ہے۔
رات جب وہ اپنے بستر پہ لیٹی تو دن بھر کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے پھر سے گردش کرنے لگے ، غصّے اور بے بسی سے آنکھیں بھر آئیں کہ اسی دوران اس کےفون پر کسی کا میسیج آیا، اس نے اسکرین بغور دیکھنی چاہی، لیکن آنسواس کے اور اسکرین کے درمیان حائل ہو گئے۔ یہ مس فاطمہ کا میسیج تھا۔ اوہ، وہ بے اختیار اُٹھ بیٹھی۔ آنکھیں رگڑیں اور میسیج پڑھنا شروع کیا’’ پیاری سارہ ! آج آپ کی بات کا بروقت جواب نہ دے سکی ، سارا دن افسوس رہا، اس لیے کل کا انتظار کرنے کے بجائے ابھی جواب دے ر ہی ہوں۔ پیاری بیٹی!تمہیں اس بات کا غم ہے کہ تمہارا عبایا اور اسکارف بھی تمہاری حفاظت نہ کر سکے۔
مگر ایسا نہیں ہے، یہ حجاب ہی تھا، جس نے تمہیں گھر لوٹنے کے بجائے کالج آنے کی ہمّت دی۔ ذرا سوچو، اگر حجاب نہ ہوتا تو وہ لڑکا اور کیا جسارت کر سکتا تھا… میری جان! تمہیں پتا ہے کہ تمہاری حفاظت کے لیے ربّ نے جہاں تمہیں خود کو ڈھانپنےکا حکم دیا ہے، وہیں بہت سے احکامات پورے معاشرے کو بھی دئیےہیں۔ مَردوں سے کہا کہ نظریں جھکا ئے رکھیں ۔ ذرایع ابلاغ سے کہا کہ بےحیائی اور فحاشی پھیلائیں گے تو سخت سزا ملے گی، ریاست سے کہا کہ میرے بندو ں اور بندیوں کی عزّت و عِصمت کی حفاطت کے لیےحدود نافذ کرو، تم نے تو اپنے حصّے کا کام کیا میری جان ، لیکن باقیوں نے دھیان ہی نہیں دیا۔
تمہیں بتاؤں کہ ہجرت کے دوسرے سال یہودیوں کو مدینے سے نکالنے کا جواز یہ بنا تھا کہ انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بےعزّت کیا تھا ۔ جانتی ہو، اگر آج حکومت خواتین پہ دست درازی کرنے والوں کو شرعی سزائیں دینا شروع کر دے، تو تم اور تمہاری جیسی سب بیٹیاں محفوظ و مامون ہو جائیں۔ کمی تمہارے حجاب میں نہیں ہے میری پیاری ، تم نے تو اللہ کے حُکم کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور وہی پاک ذات، تمہاری حفاظت بھی کرے گی۔جواب دہ تو وہ لوگ ہوںگے، جنہوں نے اپنے حصّے کا کام نہیں کیا۔‘‘ مِس فاطمہ کا میسیج پڑھتے پڑھتے ایک بار پھر سارہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’حجاب کو مکمل نظام بننے کی ضرورت ہے ۔‘‘ امّی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔ اس نظام کو نافذ کرنے میں ، مَیںاپنے حصّےکی کوشش ضرور کرتی رہوں گی،حجاب میرا محافظ ، میرے اللہ کا حکم ہے۔ عزم کی لَو اس کی آنکھوں میں دمکی اور اُمید مسکراہٹ بن کے چہرے پرپھیل گئی۔