گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم، عمران خان نے پنجاب کے دارالحکومت، لاہور کے پہلو میں واقع خشک اور ویران دریائے راوی کے کنارے دو کھرب روپے کی لاگت سے ایک لاکھ ایکڑ سے زاید رقبے پر محیط’’ نئے لاہور‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اُنھوں نے اِس موقعے پر لاہور کے سنگین مسائل اور آبادی میں بے تحاشا اضافے کا ذکر کرتے ہوئے ایک نیا شہر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا’’ لاہور اب مزید بوجھ کا متحمّل نہیں ہوسکتا۔‘‘ واضح رہے، لاہور پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا 18واں بڑا شہر ہے۔ مجموعی قومی آمدنی میں اِس کا حصّہ 11فی صد سے زاید ہے۔
اِس بات سے قطع نظر کہ نئے لاہور کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے یا نہیں اور یہ کہ پنجاب حکومت، جو پہلے ہی گونا گوں مسائل سے دوچار ہے، اِس قدر سرمایہ کاری کی متحمّل ہوسکتی ہے یا نہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک، ڈیڑھ ہزار سال سے آنے والوں کو کُھلے دل سے قبول کرنے والے لاہور کا پیمانہ اب لبریز ہو چُکا ہے۔ پنجاب کے حکم رانوں کی غلط منصوبہ بندی اور اہالیانِ لاہور کی عدم دِل چسپی کے باعث مسائل کا سیلاب کنارے توڑ کر چاروں طرف پھیل چُکا ہے۔
بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی، تجاوزات کی بھرمار، بدترین ٹریفک جام، صاف پانی کی عدم فراہمی اور دیگر شہری مسائل نے زندہ دِلانِ لاہور کے روایتی تصوّر کو اِس حد تک داغ دار کر دیا کہ شعراء بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے؎ ’’اِک ترا نام جُڑا ہے ورنہ…لاہور میں کیا رکھا ہے؟‘‘لیکن ’’جنہے لہور نی ویکھیا، او جمیا ای نئیں ‘‘ سے متذکرہ شعر تک اور موجودہ لاہور سے نئے لاہور کا سنگِ بنیاد رکھنے کے درمیان صدیوں کا فاصلہ حائل ہے، جس میں لاہور کی سماجی، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے تلخ و شیریں حقائق جھلکتے ہیں۔ کل کا لاہور کیسا تھا؟ اور آج کا لاہور کیسا ہے؟ ڈیڑھ، پونے دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں اِس حوالے سے کئی داستانیں چُھپی ہوئی ہیں۔
تاریخ کا سفر
لاہور کی تاریخ کو درجنوں مؤرخین نے قلم بند کیا ہے۔ 1882ء میں لکھی گئی’’تاریخِ لاہور‘‘ کے مصنّف، کنہیا لال ہندی کے مطابق، جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے،’’یہ شہر دارالسّلطنت مُلکِ پنجاب کا ہے، دریائے راوی کے بائیں کنارے بافاصلہ دو میل آباد ہے۔ صدہا سال سے یہ شہر خطۂ پنجاب کا حاکم نشین اور صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔‘‘ اِس کا نام کہیں’’لہور‘‘، کہیں لہانور اور کہیں لاہور لکھا ہے۔ امیر خسرو (800ء)نے اپنی ایک کتاب میں اِس کا یہی نام یعنی’’ لاہور‘‘ لکھا ہے۔البتہ اِس شہر کے بانی کا نام معلوم نہیں، لیکن کنہیا لال کے بقول یہ مشہور ہے کہ مہاراجہ رام چندر کے بیٹے ’’لو‘‘ نے یہ شہر آباد کیا تھا اور اِس کا نام ’’لوپور‘‘ رکھا، جو ایک ہزار سال میں لاہور مشہور ہوگیا۔ مصنّف نے لاہور میں مغلیہ دَور میں تعمیر کیے گئے دروازوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن میں دلّی دروازہ، اکبری دروازہ، موتی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لاہوری دروازہ، موری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ اور موچی دروازہ شامل ہے۔
تاہم ان میں کئی تجاوزات کی زد میں آکر اپنا وجود کھو چُکے ہیں۔مصنّف نے لاہور پر گزرنے والے 13صدمات کا ذکر کرتے ہوئے بیرونی یلغاروں کا احوال بھی قلم بند کیا ہے۔ مختلف حکم رانوں کے عہد میں لاہور پر جو گزری اور حملہ آوروں، خاص طور پر سِکھوں نے اِس شہر کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا، وہ تاریخ کے ہر صفحے پر ثبت ہے، لیکن حملہ آوروں کی چیرہ دستیاں کو برداشت کرنے کے ساتھ لاہور نے بڑے حوصلے سے اپنا سیاسی، سماجی اور تہذیبی سفر جاری رکھا۔ یہ بات طے ہے کہ 1524ء سے 1725ء تک مغلیہ سلطنت نے اِس شہر کی تہذیب و ثقافت پر جو اثرات مرتّب کیے، وہ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کئی جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر وہ تاریخ ساز دن بھی آ پہنچا، جب 23ماچ 1940ء کو قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی موجودی میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد اِس شہر نے قیامِ پاکستان کے لیے ایک واضح سمت کا تعیّن کر دیا۔
یوں مختلف حکم رانوں کی یادگاروں، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان، شاہی قلعہ، مقبرہ جہانگیر، بزرگانِ دین کے مزارات، گورنر ہائوس، عجائب گھر، ریلوے اسٹیشن، میو اسپتال، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، گنگا رام اسپتال، ایچی سن کالج، لارنس گارڈن(باغِ جناح) اور دیگر بے شمار تاریخی عمارات کو اپنے دامن میں لیے تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر آ پہنچا، جہاں آزاد فضاؤں میں اس نے نئے کردار اور نئے چیلنجز سے نبردآزما ہونا تھا۔
اِس سے قبل تحریکِ پاکستان کے دَوران اور 1940ء کے بعد 7برسوں میں محمّد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان کے ساتھ صحافت کے محاذ، موچی دروازے کے عوامی جلسوں، گورنمنٹ کالج ریلوے روڈ کی تقریبات( جس میں قائدِ اعظم مہمان خصوصی ہوا کرتے تھے) علّامہ اقبال کی صدارت میں منعقد ہونے والے انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں کے حوالے سے لاہور جدوجہدِ آزادی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر چُکا تھا۔
نئی فضا، نیا ماحول
1941ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی 6لاکھ، 72ہزار تھی، جو 1947ء میں بڑھ کر 7لاکھ سے زائد ہو گئی۔ اِس آبادی میں 65فی صد مسلمان اور باقی ہندو، سِکھ اور عیسائی تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آمد ، بعد کے برسوں میں پنجاب بھر سے روزی کی تلاش میں آنے والوں اور وَن یونٹ کے دَوران دوسرے صوبوں سے آنے والے ملازمین نے ایک ایسا ملٹی کلچرل معاشرہ تشکیل دیا، جس میں ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ موجود تھے۔
لاہور کے اصلی باشندوں نے اپنا الگ تشخّص برقرار رکھتے ہوئے نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ تاہم شہر میں دوسرے علاقوں سے آنے والوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہو چُکی ہے کہ اب عیدین یا طویل چھٹیوں پر جب لاہور میں رہنے والے پردیسی آبائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں، تو شہر خالی خالی، سُونا سُونا سا لگتا ہے۔
پائوں پسارتا شہر
لاہور، مغلیہ سلطنت میں بالعموم بارہ تیرہ دروازوں کے حصار کے اندر تنگ گلیوں اور بازاروں پر مشتمل تھا، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس نے فصیل سے باہر بڑھنا شروع کر دیا۔ تاریخِ لاہور کے مصنّف، کنہیا لال کے مطابق، اِس کی ابتدا ہمایوں بادشاہ ہی سے ہو گئی تھی، جب رفتہ رفتہ جنوب اور جنوب مشرق میں شہر آباد ہونا شروع ہوا، یہاں تک کہ اصل شہر سے دو چند شہر آباد ہوگیا۔ سب سے پہلے ہمایوں کی اجازت سے لنگر خان بلوچ نگاہ کے بھائی، شہزادہ کامران نے قدیم لاہور سے باہر جنوب میں مزنگ کے نزدیک اپنا محلّہ آباد کیا۔ بعد ازاں، لنگر خان کی اولاد نے بڑی بڑی حویلیاں اور پختہ مکانات تعمیر کرلیے۔ کنہیا لال کے مطابق، انگریزوں کے عہد میں پرانے موضع مزنگ، کوٹ عبداللہ شاہ، بھونڈپورہ، محلّہ موج دریا بادی، محلّہ چراغ شاہ، محلّہ درگاہ شاہ، محلّہ میانی صاحب، محلّہ دائی انگہ، محلّہ مغل پورہ اور دوسرے محلّے شامل تھے۔لاہور کی آبادی ہر دَور میں بڑھتی رہی اور پورے پنجاب کے مزدور، محنت کش، ہُنر مند، سرکاری، غیر سرکاری ملازمین اور طلبہ یہاں قسمت آزمائی کے لیے آتے رہے۔
اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کی آبادی غیر سرکاری اندازوں کے مطابق، ڈیڑھ پونے دو کروڑ تک پہنچ گئی۔اندرونِ شہر جگہ تنگ ہونے کے باعث پہلی بار 1902ء میں قدیم لاہور سے باہر بستیاں بسانے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا، جب مقامی بلدیہ نے کوآپریٹو ایکٹ منظور کیا، تو 921ءمیں قدیم لاہور سے 25کلو میٹر باہر دیوان کھیم چند کی سربراہی میں ماڈل ٹائون سوسائٹی کے نام سے پہلی جدید رہائشی سہولتوں سے مزیّن آبادی قائم ہوئی، جہاں اندرونِ لاہور سے نقل مکانی کرنے والے ریٹائرڈ ججز، وکلاء اور تاجر آباد ہوئے۔ دوسری بڑی آبادی، ٹائون شپ شہر سے 30کلو میٹر دُور صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں آباد ہوئی اور بعد ازاں یہاں 9ہزار یونٹس پر مشتمل انڈسٹریل ایریا وجود میں آیا۔ لاہور کی آبادی کا چَھلکا ہوا پیمانہ اب لاہور کے گردو نواح میں قائم ہونے والی بے شمار نجی رہائشی سوسائٹیز اور کالونیوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے، جنہوں نے لاہور کے گرد سرسبز و شاداب کھیتوں، زرعی اراضی کو سیراب کرنے والے کنوئوں اور باغات کو تاراج کرکے وہاں کنکریٹ کا جنگل کھڑا کردیا ہے۔
نئی رہائشی کالونیوں کے اِس سیلاب میں 100 سے زائد چھوٹے باغات بہہ گئے، جن میں سے کئی ملکہ نور جہاں کے بنائے ہوئے تھے، جب کہ اب لاہور کے ماسٹر پلان میں مزید 135 قصبات اور گائوں بھی شامل کیے گئے ہیں، جو لاہور کی توسیع کی زد میں آئیں گے۔ اِس سارے عمل نے لاہور کے شہریوں کو نہ صرف تازہ ہوا، صاف پانی، سبزیوں، پھلوں اور فصلوں سے محروم کردیا، بلکہ جعلی رہائشی اسکیمز کے نام پر لاکھوں شہری، لالچی پراپرٹی ڈیلرز مافیا کے ہاتھوں اربوں روپے گنوا چُکے ہیں۔
رہائشی کالونیوں کے نام پر گزشتہ کئی دہائیوں سے شہریوں کو اربوں روپے کا لگایا جانے والا ٹیکا اس شہر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بے ہنگم منصوبہ بندی نے کم از کم 30،40 کلومیٹر تک پھیل جانے والے لاہور میں تین مختلف قسم کی آبادیوں کو جنم دیا ہے، جو’’ تِھری اِن وَن‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ایک پرانا لاہور، دوم، پرانے لاہور سے باہر پرانے محلّے اور سوم، پوش اور جدید آبادیاں۔ یہ وہ رہائشی کلچر ہے، جس نے کل کے لاہور کے مقابلے میں آج کے لاہور کے تہذیبی اور ثقافتی تشخص کو مجروح کیا ہے۔ بڑے شہروں کا یہ وہ المیہ ہے، جس سے زندہ دِلانِ لاہور بھی نہ بچ سکے۔
دَم توڑتی علمی و ادبی قدریں
قیامِ پاکستان کے وقت اور اُس سے پہلے لاہور کو جو علمی و ادبی روایات منتقل ہوئیں، وہ آج کے لاہور میں دَم توڑتی محسوس ہورہی ہیں۔ آزادی کے وقت لاہور میں کئی ایسے چائے خانے اور ریستوران موجود تھے، جہاں شاعر، دانش وَر اور ادیب علمی و ادبی گتھیاں سلجھاتے۔ اُس وقت مال روڈ کے پہلو میں ایک سِکھ فیملی کا قائم کردہ’’ پاک ٹی ہائوس‘‘ واقع تھا، جہاں اُس دَور کے نام وَر ادیب اور شاعر ادبی مباحثہ کیا کرتے۔ اُن میں فیض احمد فیض، آغا شورش کاشمیری، ابنِ انشاء، احمد فراز، سعادت حسن منٹو، احمد راہی، منیر نیازی، میرا جی، کمال احمد رضوی، ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، اے حمید، ڈاکٹر محمد باقر، سیّد قاسم محمود کے علاوہ دیگر اہلِ قلم شامل تھے۔
انجمن ترقّی پسند مصنّفین، پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کے ادیب اور شاعر یہاں جمع ہوتے۔یہ پاک ٹی ہائوس آج بھی قائم ہے، لیکن یہاں ادیبوں و شاعروں کی بجائے اردگرد واقع تعلیمی اداروں کے طلبہ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ معروف شاعر، اقبال راہی کے بقول ’’کل کے مقابلے میں آج کے لاہور کا ادبی منظر نامہ یک سر تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک تو بڑے ادیبوں، شاعروں کا خلا پورا نہیں ہوا۔ آج کی ادبی دنیا ویران، سنسان معلوم ہوتی ہے، محض گِنے چُنے ادیبوں، شاعروں نے اردو ادب کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ دوم، الیکٹرانک میڈیا نے بھی ادبی دنیا کو بلڈوز کردیا۔
بڑے شاعروں، ادیبوں نے الیکٹرانک میڈیا میں پناہ لے رکھی ہے، ادبی جرائد بند ہو چُکے ۔ شاعری، افسانوں اور ناولوں کی اشاعت چند سو تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ معروف اہلِ قلم پوش آبادیوں میں منتقل ہوکر قاری سے وہ رشتہ اور رابطہ توڑ بیٹھے، جو کل کے لاہور میں باہمی میل ملاقاتوں پر استوار تھا۔ مشاعروں کی روایت بھی دَم توڑ چُکی ہے۔ نوجوان شاعر اب سوشل میڈیا پر دِل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، کیوں کہ ماضی کی طرح شعر و شاعری میں شاگردی، استادی کا تصوّر ہی ناپید ہو چُکا ہے۔‘‘
دُکھ درد بانٹنے کی روایت
کل کے لاہور کی روایات اور کلچر اب بعض بزرگ ادیبوں کی کتب ہی میں زندہ رہ گیا ہے۔ ہمایوں ادیب نے اپنی ایک کتاب میں 6دہائیاں پہلے کے طرزِ زندگی کو’’ 7دن اور 8میلے‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ یعنی لاہور میں کوئی دن ایسا نہ تھا، جب اہلِ لاہور کوئی نہ کوئی جشن نہ مناتے ہوں۔ لاہور کے 12دروازوں کے اندر ایک دنیا آباد تھی۔ یہاں مغلوں کے دَور سے چلے آنے والے خاندان اور پیشہ ور لوگ جیسے حکیم، پنسار، لوہار، ترکھان، درزی، معمار، نقّاش، پارچہ باف، خوش نویس وغیرہ رہتے تھے۔ تیر کمان اور لوہے کے ہتھیار بنانے والوں کے محلّے آج بھی موجود ہیں۔ بازار تنگ اور گلیاں دو دو، تین تین فِٹ کی تھیں، لیکن دل بڑے تھے۔
ایک خاندان پر کوئی مشکل گھڑی آتی، تو پورا محلّہ ساتھ کھڑا ہوتا۔ نئے موسم کا پھل کسی ایک کے گھر آتا، تو ہم سایوں میں بھی تقسیم ہوتا۔ رات کو دکانوں کے آگے تَھڑوں کی سیاست جاگ جاتی۔ رات 12بجے سینمائوں میں آخری شو ختم ہوتا، تو گھر جانے والے پہلے چائے خانوں پر چائے کا ایک دَور ضرور چلاتے۔ مذہبی منافرت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہر خاندان کو دوسرے کا شجرۂ نسب تک پتا ہوتا۔ کسی کے گھر میں آٹا، پیاز ختم ہو جاتے، تو وہ ہم سائے سے مانگ لیتا۔ نوجوان، بزرگوں کے سامنے سگریٹ کو ہاتھ نہ لگاتے، لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا۔ہمایوں ادیب نے اپنی کتاب ’’یادیں‘‘ میں لوہاری دروازے کے ایک تاجر کا حوالہ دیا ہے، جو اپنے بیٹوں کے مجبور کرنے پر آبائی مکان بیچ کر ایک جدید سوسائٹی میں منتقل ہوگئے، لیکن وہاں اُن کا دل نہیں لگ سکا۔
اُن کے بیٹے ہر تیسرے چوتھے دن اپنے والد کو پرانے ساتھیوں سے گپ شپ کے لیے پرانے محلّے چھوڑ جاتے۔ وہ بتاتے کہ نئی آبادی میں سب آسائشیں میّسر ہیں، سوائے باہمی پیار و محبّت اور محلّے داری کے۔ اکثریت کو نہیں معلوم کہ اُن کا ہم سایہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اور اس کا دُکھ سُکھ کیا ہے؟ وہاں کسی کی بیماری یا انتقال کا اُس وقت پتا چلتا ہے، جب کسی کوٹھی کے آہنی گیٹ کے سامنے سائرن بجاتی ایمبولینس آ کر رُکتی ہے۔
’’دُبئی چلو‘‘ کلچر
ماہرینِ سماجیات کے خیال میں پنجاب اور خاص طور پر لاہور کے کلچر میں ایک بڑی تبدیلی 1970 ء کی دہائی میں دیکھنے میں آئی، جب ذوالفقار علی بھٹّو کے دورِ حکومت میں ہنر مندوں کو ایک پالیسی کے تحت خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب میں روزگار کے لیے بھیجنا شروع کیا گیا۔ ان تارکینِ وطن کی بھیجی گئی رقوم نے معاشرے کے ایک بڑے حصّے کا رہن سہن تبدیل کر دیا ۔ اعدادوشمار کے مطابق 1970ء میں صرف دو ہزار پاکستانی خلیجی ممالک میں کام کر رہے تھے۔ 1974ء میں یہ تعداد 16ہزار ہو گئی اور زرِ مبادلہ 1.6بلین سے بڑھ کر 2بلین روپے تک پہنچ گیا۔ 1970ء میں پاکستانیوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کے جو مواقع کُھلے، وہ آگے چل کر اِتنے بڑھے کہ آنے والے برسوں میں ہر تیسرے ،چوتھے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد مشرقِ وسطیٰ یا یورپ سے پیسے کما کر پاکستان بھیج رہا تھا۔
اس سے مُلکی معیشت میں بہتری ضرور آئی، لیکن باہر سے آنے والی دولت نے پنجاب اور شمالی علاقوں بالخصوص لاہور کے معاشرتی ’’سیٹ اَپ‘‘ کو ’’اَپ سیٹ‘‘ کر دیا۔نیز، اِس نئے کلچر نے لاہور کی توسیع میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ بیرونِ مُلک سے آنے والی رقوم نے جائیداد کی خریداری کے ایک ایسے کاروبار کی بنیاد رکھی، جس کا حجم اربوں اور کھربوں سے بھی زیادہ ہے۔ لاہوری کھانے پینے کے تو شروع ہی سے شوقین تھے (اور ہیں)، لیکن جب باہر سے آنے والا پیسا عام ہوا، تو فوڈ اسٹریٹس کے نام پر ایک ایسا کاروبار وجود میں آیا، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور اب قدم قدم پر برگرز، حلیم، شوارمے، دہی بَھلوں، سموسوں، مٹن کڑاہی، نہاری، بریانی، گول گپّوں، لسّی، جلیبیوں وغیرہ کے اسٹال دیکھ کر لگتا ہے، لاہوریوں کو کھانے کے سِوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع فوڈ اسٹریٹ نے تو لاہوریوں پر خوش خوراکی کا لیبل ہی چسپاں کر دیا ۔
اُبھرتی، مِٹتی اقدار
کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک ہزار سال سے زاید تاریخ کا حامل لاہور کن سماجی اور ثقافتی نشیب و فراز سے گزرا؟ لیکن بڑے بزرگوں نے اپنی زندگی میں لاہور کو بدلتے ضرور دیکھا ہے۔ ایک 90سالہ بزرگ ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ’’ تانگے کی سواری، جو قیامِ پاکستان کے بعد کافی عرصے تک لاہور میں آمدورفت کا ایک بڑا ذریعہ تھی، اب صرف میوزیم میں نظر آتی ہے۔ یا کبھی کبھار کسی بڑی تقریب میں اسے ماضی کی ایک حَسین یادگار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جب لاہور میں تانگے چلتے تھے، تو بیش تر تاریخی دروازوں کے باہر تانگہ اسٹینڈ ہوتے تھے، جہاں گھوڑوں کے پانی کے لیے حوض بھی بنے ہوتے ۔
تانگے گندگی پھیلانے کے باعث ختم کر دیئے گئے۔ اِسی طرح جب دریائے راوی سوکھا، تو ملّاحوں نے بسز کی کنڈکٹری سنبھال لی۔ لاہور میں سائیکل کی سواری بھی بہت مقبول تھی اور اگر ڈینمو والی لائٹ نہ ہوتی، تو لوگ ہینڈل کے ساتھ ایک دیئے کے لیے جگہ بنا لیتے تاکہ چالان نہ ہو۔ ماضی قریب میں مال روڈ پر جنرل پوسٹ آفس کے باہر خط لکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک لمبی قطار دِکھائی دیتی، جو اب نہ جانے کہاں گم ہوگئی۔ 25,20سال پہلے سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسز بھی چلتی تھیں۔ گلی محلّوں میں قلعی گروں کی آواز بھی سُنائی نہیں دیتی۔ مال روڈ اب لاہور کی رونقوں کا مرکز ہے، لیکن کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ 1950-55ء میں ناصر کاظمی یہاں رات کو تنہائی کی تلاش میں ٹہلا کرتے تھے۔
یہ وہ دَور تھا، جب اندرونِ شہر کے بچّے ایک بڑے بکس اور گول شیشوں پر مشتمل بائی اسکوپ میں تصویریں دیکھا کرتے، جب کہ بازاروں میں کرسی پر بیٹھے فوٹو گرافر سے تصاویر بنواتے۔ یہ کیمرا بھی کمال کا تھا۔ ایک بڑا بکس ،جس پر سیاہ کپڑا پڑا ہوتا اور دیوار کے ساتھ سیاہ رنگ کا لٹکتا ہوا پردہ۔ تصویر کا پرنٹ اُسی وقت گاہک کو مل جاتا، البتہ بعض اوقات فوٹو گرافر کو بڑی مشکل سے گاہک کو یقین دلانا پڑتا کہ یہ تصویر اُسی کی ہے۔ہمارے دَور میں پانی صاف تھا۔ چوری ڈکیتی کم تھی، اب تو ہر خاندان اپنے لیے صاف پانی کا انتظام خود ہی کرتا ہے اور حفاظت کے لیے گارڈز بھی رکھے ہوئے ہیں، تو پھر حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ جس کی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘‘۔
فلم نگر سے لالی وُڈ تک
قیامِ پاکستان سے پہلے برّصغیر میں بمبئی اور لاہور فلم اور تھیٹر کی دنیا کے مراکز تھے۔دونوں شہروں میں ساحر لدھیانوی، سعادت حسن منٹو، منیر نیازی، قتیل شفائی، نور جہاں اور دیگر فن کاروں اور شعراء کی آمدورفت جاری رہتی۔ تقسیم کے بعد کئی فن کار بھارت میں رہ گئے اور کئی پاکستان سے وہاں منتقل ہو گئے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے محمّد رفیع نے اُسی زمانے میں بمبئی کا رُخ کیا ۔ لاہور سے بھارت جانے والوں میں امریش پوری، محمّد رفیع، پریم چوپڑہ، یش چوپڑہ، شیکھر کپور اور کامنی کوشل وغیرہ شامل تھے۔لاہور نے اپنے فلمی سفر کا باقاعدہ آغاز غالباً فلم ’’تیری یاد‘‘ سے کیا، جو 1948ء میں پربھٹ تھیٹر میں ریلیز ہوئی۔ اسی دوران 1951ء میں ’’چن وَے‘‘ ریلیز ہوئی، جس کی پہلی خاتون ہدایت کار نور جہاں تھیں۔ لاہور میں فلم نگر کا یہ سفر 1977ء تک جاری رہا، جب لاہور کے ایورنیو اور دوسرے اسٹوڈیوز میں رات کو دن کا سماں ہوتا ۔
لاہور پنجابی اور اردو فلموں میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ بہرحال، جب 1977ء کے بعد فلمی دنیا اور خاص طور پر لاہور کے فلم نگر کا زوال شروع ہوا، تو اُس وقت اُس کے کریڈٹ پر 10ہزار اردو اور 8ہزار پنجابی فلمیں تھیں۔ اسی دَوران 1989ء میں کراچی کے ایک جریدے نے لاہور کو ہالی وُڈ کی مناسبت سے ’’لالی وُڈ‘‘ کا نام دیا، جو اب اس کی فلمی دنیا میں پہچان بن گیا ہے، لیکن اس سے قبل جنرل ضیاء الحق کے دور میں فلمی صنعت پر ایک ایسا زوال آیا، جس کے سائے اب تک لالی وُڈ پر منڈلا رہے ہیں۔ کل کے لاہور کے نگار خانے اب ویران ہو چُکے۔ فن کار زبوں حالی کے بھنور میں پھنس گئے اور زیادہ تر نے کراچی کا رُخ کر لیا۔ یوں کل کا پُررونق فلم نگر آج صرف سنہری یادوں کے ساتھ کتابوں یا فلموں میں زندہ ہے۔
صبیحہ خانم، سنتوش، لالہ سدھیر، وحید مراد، محمّد علی، اسلم پرویز، آغا طالش، زیبا، علائو الدّین، نور جہاں، مسرّت نذیر، لہری، منور ظریف اور دیگر بے شمار فن کار کل کے لاہور کے ساتھ تاریخ کا حصّہ بن گئے ۔ ماضی کے سنہری دور میں لاہور اِس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ یہیں قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تھا۔ 26؍ نومبر 1964ء کو لاہور سے پہلی ٹی وی ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا۔ اسی طرح لاہور ہی سے رات گیارہ بج کر 59منٹ پر مصطفیٰ علی ہمدانی نے قیامِ پاکستان اور آزادی کا اعلان کیا۔ اِسی طرح پاکستان کے قومی ترانے کے خالق، حفیظ جالندھری کا مسکن بھی لاہور ہی تھا۔ سیکرٹریٹ پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے والی ایک خاتون بھی تاریخ کا حصّہ ہیں۔
لاہور میں مینارِ پاکستان ایک ایسی یادگار ہے، جو آج بھی پاکستان بھر کے لوگوں میں ولولہ اور عزم بیدار کر دیتی ہے۔ لاہور میں فروغِ تعلیم کے لیے قیامِ پاکستان سے قبل انجمن حمایتِ اسلام اور دیگر مسلمان اکابرین کی مساعی سے گھروں سے آٹا اور چندہ جمع کر کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج 30سے زائد یونی ورسٹیز اور 200 سے زائد سرکاری اور غیر سرکاری کالجز تک پھیل چُکا ہے، لیکن کل اور آج کے لاہور میں فرق صرف جذبے کا ہے۔ آج علم و ادب کا گہوارہ تعلیم کے نام پر اربوں کے کاروبار، منافع خوری، لالچ اور اکیڈمی مافیا کے شکنجے میں پھنس چُکا ہے، جو ہر سال اربوں روپے والدین کی جیب سے نکلوا لیتا ہے۔
اِک محشر بپا ہے
پانچ چھے دہائیاں پہلے لاہور میں آمدورفت کے لیے تانگے چلتے تھے اور دریائے راوی میں ملاح کشتیاں چلاتے۔ اکثر لوگ سائیکلز پر گھومتے پِھرتے۔ اُس دَور میں ’’ریلے‘‘ کے سائیکل کو وہی حیثیت حاصل تھی، جو آج کسی اچھی کار کو ہے۔ پھر دس پندرہ سال قبل لاہور میں تانگوں پر پابندی لگ گئی اور سعادت حسن منٹو کی مرغوب سواری ماضی کا حصّہ بن گئی۔ راوی سوکھ گیا، تو ملاح بے روزگار ہو گئے۔ ایک زمانے میں یہاں ڈبل ڈیکر بس بھی چلتی تھی، جو اب محض تاریخی عمارات دیکھنے کے لیے سیّاحوں کے تفریحی ٹور کے طور پر چلتی ہے۔ سائیکل کا بھی وہی حشر ہوا، جو پطرس نے اپنے مضمون ’’بائیسکل‘‘ میں کیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کی نمائشی سواری بھی لوگوں کو اس طرف مائل نہ کر سکی۔ اصل میں 1970ء کے بعد بیرونِ ممالک سے آنے والی رقوم میں تیزی سے خوش حالی آئی۔ بعد ازاں، بینکس کی طرف سے گاڑی خریدنے کی سہولتوں اور قسطوں پر موٹر سائیکلز لینے کے رحجان نے دیکھتے ہی دیکھتے پُرسکون لاہور کو گاڑیوں کے ایک ایسے’’محشرستان‘‘ میں تبدیل کر دیا، جسے اب’’ BUMPER TO BUMPER‘‘ ٹریفک کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی ایسی ٹریفک، جس میں ایک کار کا بمپر، دوسری کار کو ٹچ کر رہا ہو۔ حکّامِ بالا کے پاس اندھا دھند چالانوں کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے مطابق فروری 2020ء میں لاہور میں گاڑیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 6ملین (60لاکھ) کی تھی۔
ان میں 40لاکھ موٹر سائیکلز اور 8لاکھ سے زاید کاریں ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ایک لاکھ گاڑیاں رجسٹر ہوئیں۔ اتھارٹی کے مطابق، پورے پنجاب میں تقریباً 2کروڑ گاڑیاں ہیں، جن میں سے 32فی صد لاہور میں ہیں۔ 2005ء میں لاہور میں کُل 20لاکھ گاڑیاں تھیں، جن میں 5لاکھ موٹر سائیکلز، 3لاکھ کاریں اور 40ہزار رکشے تھے، لیکن بعد ازاں لاہور کی ٹریفک میں گاڑیوں کا ایسا سیلاب آیا، جس نے اس خُوب صُورت شہر کے خدوخال تباہ کر ڈالے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 20سال میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں 332فی صد اضافہ ہوا، جب کہ سرکاری ٹرانسپورٹ میں 165فی صد کمی ہوئی۔ نیز، روڈ نیٹ ورک میں صرف 6فی صد اضافہ ہوا، جس کے باعث محدود سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب سڑکوں کے کناروں سے اچھل کر رہائشی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
شہباز شریف کے دَورِ حکومت میں کھربوں روپے کی لاگت سے میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے بنائے گئے، لیکن اورنج ٹرین کا افتتاح اَنا کا مسئلہ بنا ہوا ہے، جب کہ میٹرو بس بھی شہر کے ٹریفک مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔اِس صُورتِ حال پر حکّام کا یہی کہنا ہے کہ’’ جہاں ہر شخص کے پاس موٹر سائیکل ہو اور امیر گھرانوں میں بیوی بچّوں کے لیے بھی علیٰحدہ علیٰحدہ گاڑیاں ہوں، تو پھر نتیجہ ٹریفک جام ہی کی صُورت میں نکلنا تھا۔‘‘ اسی لاہور کو گزشتہ سال ماحولیاتی آلودگی اور گندگی کی وجہ سے ایشیا کا غلیظ ترین شہر قرار دے دیا گیا۔لاہور اکثر غیرمُلکی حملہ آوروں کی زد میں رہا، لیکن 1965ء کا بھارتی حملہ اکثر بزرگوں کو یاد ہے، جب سرحد پر’’ رانی توپ‘‘ دشمن پر گولے برساتی تو لاہور بھی’’ اللہ اکبر‘‘ کی صدائوں سے گونج اُٹھتا۔
اس سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی شہید کو نشانِ حیدر ملا۔ جنگ کے دنوں میں دفاعی فنڈ میں لاہور کی خواتین نے اپنے زیور بھی عطیہ کر دیے، جب کہ شعراء اور گلوکاروں نے ایسے ترانے تخلیق کیے، جو آج بھی لہو گرماتے ہیں۔ماضی کے حملہ آوروں نے جہاں اِس شہر پر کاری زخم لگائے، وہاں کئی حکم رانوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارات کی بدولت اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس شہر کو عالمی ثقافتی وَرثے کا حامل بھی قرار دیا ہے۔ دِل چسپی کی بات یہ بھی ہے کہ صدیوں تک دارالسّلطنت رہنے والا یہ تاریخی شہر اب بھی اسلام آباد کے اقتدار تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ ہے اور اسی شہر کے مُہروں کی چالوں سے’’شاہ‘‘ کو مات دی جاتی ہے۔
لاہور کا ’’چیلسی‘‘
لاہور میں1930 ء سے 1970 ء کی دہائی تک ایک زمانہ ایسا بھی تھا، جب تاریخی ’’بھاٹی دروازے‘‘ کے اندر واقع آبادی میں ایسی ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں رہتی تھیں، جن کی مثال نہیں ملتی۔ معروف مصنّف، احمد شجاع پاشا نے اس علاقے کو ’’لاہور کا چیلسی‘‘ نام دے کر ایک کتاب لکھی، جس کا پیش لفظ منیر احمد منیر نے لکھا۔ وہ کہتے ہیں’’برطانیہ میں لندن کے نزدیک’’ چیلسی‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے، جہاں ایک زمانے میں برطانیہ کے نام وَر ادیب، شاعر اور دانش ور مقیم تھے۔‘‘ احمد شجاع پاشا نے اسی سے متاثر ہوکر بھاٹی دروازے کو’’چیلسی‘‘ کا نام دیا۔
یہاں قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد ازاں جو معروف لوگ رہتے تھے، اُن میں محمّد حسین آزاد، ایک بڑے اخبار کے مدیر اور ناشر محرم علی چشتی، ادبی جریدے نیرنگ خیال کے مدیر حکیم یوسف حسن، بہترین افسانہ نگار ایم اسلم اور افسانہ نگار غلام عباس وغیرہ شامل ہیں۔ مشہور اخبار زمیندار کا دفتر بھی یہیں تھا، جہاں مولانا ظفر علی خان کا آنا جانا رہتا۔ علّامہ اقبال کے انتہائی قریبی دوست شیخ گلاب الدین کا ھر تھا، جہاں اقبال آتے جاتے۔ احمد شجاع کے والد محمّد شجاع احمد، سرشہاب الدّین (پنجاب اسمبلی کے پہلے اسپیکر)، کرکٹر حفیظ کاردار، گل محمد، نذر محمد، امتیاز احمد، فلمی دنیا کے معروف ڈائریکٹر، اے آر کاردار( جو خاموش پنجابی فلموں کے بانی تھے) اور ایم اسماعیل( اداکار) وغیرہ سب یہیں رہتے۔ لاہور کا پہلا سینما بھی 1910 ء میں عزیز تھیٹر کے نام سے بھاٹی کے باہر بنا ، جو 1947 ء کے بعد’’ پاکستان ٹاکیز‘‘ کہلایا۔ منیر احمد منیر کے مطابق، یہ علاقہ فن کاروں کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔
ہیرا لعل یہیں کے رہائشی تھے، جو بعد میں بھارت چلے گئے۔گلو کار محمّد رفیع کے بھائی محمّد صدیق کا گرم حمّام بھی بھاٹی کے اندر تھا، جہاں محمّد رفیع بھارت جانے سے پہلے گنگنایا کرتے ۔ اسی حمّام میں ان کی ملاقات گل بلوچ (فلم ساز) سے ہوئی، جنہوں نے اپنی فلم’’ گل بلوچ‘‘ میں محمّد رفیع کا پہلا گانا ریکارڈ کروایا، وہی محمد رفیع کو لاہور سے بمبئی لے گئے تھے۔ لاہور بلکہ پنجاب کے معروف ترین فقیر خاندان کے قدیم بزرگ، فقیر عزیز الدین(مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیرِ خارجہ) اور دوسرے اکابرین فقیر سیّد وحید الدّین وغیرہ بھی بھاٹی دروازے کے اندر مقیم تھے اور ان کی چوتھی نسل آج بھی یہاں آباد ہے۔
اس کے علاوہ یہاں گلوکارہ عنایتی بائی، بھائی پھیرو والی اور سیارو مشین مقیم تھیں،جن کے حُسن اور آواز کا طوطی بولتا تھا۔ ریڈیو پاکستان والے مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین،گلوکارہ نسیم بیگم، شیخ اقبال، گلوکار غلام علی، استاد بڑے غلام علی خان، معروف ادیب میرزا ادیب اور معروف کارٹونسٹ عبدالحمید(میر صاحب) بھی ابتدا میں اسی علاقے کے مکین تھے۔
علمائے کرام میں معروف اسکالر مولانا غلام مرشد بھی یہیں رہتے تھے، جن کا درس سُننے علّامہ اقبال بھی آیا کرتے۔ منیر احمد منیر کے مطابق’’ آج کا بھاٹی دروازہ ایسی نابغۂ روزگار شخصیات سے خالی ہے اور صرف یادیں باقی رہ گئی ہیں کہ چھوٹے علاقےمیں کیسے کیسے لوگ آباد تھے، جنہوں نے نہ صرف لاہور، بلکہ پورے مُلک کے لیے علمی، ادبی اور ثقافتی سمتوں کا تعیّن کیا‘‘۔
پہلوانی کے ویران اکھاڑے
لاہور کی ایک اور خُوب صورت روایت جو بُری طرح مجروح ہوئی ، وہ پہلوانی اور کُشتیوں کے دنگل ہیں۔ یہ دنگل قیامِ پاکستان سے پہلے لاہور کی معاشرتی زندگی کا حُسن تھے۔ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے راجے، مہاراجے پہلوانوں کی سرپرستی کیاکرتے ، اُس وقت لاہور پنجاب بھر کی کُشتیوں کا گڑھ تھا اور پہلوانوں کا شہر کہلاتا تھا۔اُن دنوں گاما پہلوان اور اُن کے بھائی، خدا بخش پہلوان کا ڈنکا بجتا تھا۔ گاما نے رستمِ ہند اور رستمِ زماں کا خطاب پانے سے پہلے اور بعد میں کوئی کُشتی نہیں ہاری ۔
قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں کالے والے، کوٹ والے اور نورے والے تین بڑے گروپس کے درجنوں اکھاڑے تھے، جہاں ان کے خلیفہ، استاد اور ’’پٹھے‘‘ پہلوانی کے 365سے زائد دائو پیچ سیکھتے، سِکھاتے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے لاہوری پہلوانوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں بُوٹا پہلوان، گونگا پہلوان، نتھا چنگڑ، چنن پہلوان، قسائی ستارہ پہلوان اور درجنوں دیگر نمایاں ہیں۔ پرانے لاہور کے تاریخی دروازے کے باہر پہلوانوں کے اکھاڑے تھے۔ آزادی کے بعد گامااور اُن کے خاندان کے بیش تر پہلوان لاہور آ گئے۔
منظور حسین بھولو پہلوان، اعظم پہلوان، اکرم اور گوگا پہلوان، جھارا، ناصر بھولو اور دیگر نے فنِ پہلوانی کو زندہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن آہستہ آہستہ یہ فن دَم توڑتا رہا اور کُشتیوں کے وہ مقابلے، ماضی کا حصّہ بن گئے، جن میں جیتنے والا پہلوان بگھی میں سوار ہو کر ہاتھ میں گُرز لیے ریشمی دھوتی، لنگی اور کُرتے میں ملبوس،سونے کےتاج اور ہاروں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر شہر کا چکر لگاتا۔
اب لاہور میں صرف چند اکھاڑے باقی رہ گئے ہیں۔ پھر یہ کہ اب وہ پہلوان بھی نہیں رہے، جن کے مقابلوں کی گونج، انگریزوں کے دَور میں برطانیہ تک سُنائی دیتی تھی۔ پہلوانی کا شوق کم ہوگیا ہے، کیوں کہ منہگائی نے اکثر پہلوانوں کو چاروں شانے چت کر دیا ہے کہ وہ اپنی خوراک کے بھاری اخراجات کا بوجھ برداشت کریں یا بچّوں کے لیے دال دلیے کا بندوبست۔