• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنیوں کا شہر کراچی عرصہ دراز سے بہت سی منفی خبروں کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ کبھی قتل و غارت، لوٹ مار، کرپشن، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ،ہیٹ ویو اور اب جو نئی مصیبت کراچی کے باسیوں پر نازل ہوئی ہے وہ مون سون کی طوفانی بارشیں ہیں، جنہوں نے پورے شہر میں تباہی مچا دی ہے۔ کراچی کا کوئی ایسا کونہ نہیں بچا جہاں پانی کی یلغار نہ ہو، جگہ جگہ پانی نظر آرہا ہے اوروہ علاقے جو بڑے پوش اور ترقی یافتہ سمجھے جاتے تھے ،وہ بھی سیلابی ریلے کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔آج کراچی کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے، کراچی کے موجودہ باسیوں کو شاید اپنے شہر کی تابناک تاریخ کااتنا علم نہ ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے والا سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو مئیر تھا جس نے انیس سو دس کی دہائی میں ایک پاور پلانٹ لگایا تھا۔

ہر چند رائے کے لگائے گئے پاور پلانٹ کی بدولت کراچی روشنیوں سے جگمگا اٹھا تھا اور پورے برصغیر سے لوگ کراچی کی روشنیاں دیکھنے آیا کرتے تھے، کراچی شہر کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے ہر چندرائے نے طویل سوچ و بچار اور مشاورت کے بعد ماسٹر پلان تیار کیا،اس پلان کے تحت مون سون بارشوں کے بعد تباہی کا باعث بننے والے دریائے لیاری پر بند باندھ کر رُخ موڑا گیا اورزرخیز زمین کا کارآمد استعمال یقینی بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ہر چند کو بابائے جدید کراچی (فادر آف ماڈرن کراچی)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح کراچی میونسلپلٹی کا ایک اور نام جمشید مہتہ کا ہے جسے کراچی کے پہلے منتخب میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پارسی تھے،وہ انسانیت کا درد رکھتے تھے۔

اس نے مچھیروں کی قدیمی بستی کو دنیا کے ترقی یافتہ اور صاف ستھرے شہر میں ڈھالنے میں نمایاں کردار ادا کیا،بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی بناء پر کاروباری سرگرمیوں کا فروغ جمشید مہتہ کی اولین ترجیحات میں شامل تھا،جمشید مہتہ قائداعظم کے پیش کردہ چودہ نکات کے تحت سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کے مطالبے کےپرزور حامی تھے، انہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر ہندوستان بھر سے آنے والے مہاجرین کی کراچی میں آبادکاری کیلئے جامع ماسٹرپلان تیار کیا،ان خدمات کی بدولت جمشید مہتہ کو جدید کراچی کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔

کراچی کی تاریخ میںاور بھی ایسی بے شمارانسان دوست شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنے آہنی عزم کی بدولت کراچی کو ایک غریب پرور شہر میں ڈھال لیا جسکے دروازے ہر مذہب ، ہر قومیت اور زبان بولنے والوں کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، انہوں نے کراچی کوایک ایسے بے مثال شہر کی شہرت عطا کی جہاں کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا کیونکہ اس کو کوئی نہ کوئی کام، روزگار کراچی میں مل جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کراچی ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار ہے، ہر نیا ایشو پچھلے مسئلے سے زیادہ تباہ کُن ثابت ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے عوام کو بے یار و مددگار زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیاہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ آخر یہ سب پریشانیاں کراچی کے باسیوں کا ہی مقدر کیوں بنتی جارہی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ لوگ ایسی غلطیاں کرتے ہیں جس کا خمیازہ اس کی آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے ، کراچی کے باسیوں نے اپنے ان محسنوں کو بھلا دیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں کراچی کو بنانے کیلئے وقف کردی تھیں،ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کراچی کسی ایک قومیت کا یا کسی ایک سیاسی جماعت کا شہر نہیں ہے بلکہ کراچی ہم سب کا شہر ہے ،کراچی پورے پاکستان کی پہچان ہے ،کراچی ملک کا معاشی حب ہے، کراچی قائد اعظم کا شہر ہے۔

کراچی سے وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی، ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو اوربلاول بھٹو الیکشن لڑچکے ہیں لیکن آج کراچی اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔اگر گزشتہ صدی میں انگریز سامراجی حکومت میں ہر چند رائے اور جمشید وانجی جیسے میئر اپنے آہنی عزم کی بدولت کراچی کو روشنیوں کے شہر میں ڈھال سکتے ہیں ، جبکہ اس وقت ان کے پاس وسائل کی بھی کمی تھی ،ٹیکنالوجی بھی اتنی جدید نہیں تھی اور ہم انگریزوں کے بھی غلام تھے، اس زمانے میں اگر وہ وژنری لوگ کراچی کے مسائل سمجھ سکتے تھے اور کراچی کو ایک بے مثال رول ماڈل شہر بنا سکتے تھے تو آج آخر ہم لوگوں میں کس چیز کی کمی ہے؟آج ہم لوگ کیوں نہیں آپس میں مل بیٹھتے؟ ہم کب تک الزام تراشی اور اناپسندی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟

اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں کراچی کا خیال کرنا ہوگا۔ کراچی میں بسنے والوں کو اور کراچی کی لیڈرشپ کو، چاہے وہ صوبائی قیادت ہو، لوکل گورنمنٹ ہو یاوفاقی حکومت ہو ، سب کو مل کرکراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ایک مربوط اور مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ کراچی کا ایک اورسب سے بڑا مسئلہ قبضہ مافیا ہے ، جس کو جو جگہ نظر آتی ہے وہ قبضہ کئے جا رہا ہے ،جہاں سے پہلے دریا گزرتا تھا جہاں ندیاں نالے تھے،ہم نے وہاں بھی نئی آبادیاں اور بستیاں بسا لی ہیں، آج اگرسیلابی پانی کا بہاؤ دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے پانی پھر سے اپنے اسی قدرتی روٹ پر بہہ کر تباہی مچا رہا ہے جو کہ ماضی میں ماسٹر پلان کا حصہ تھا ۔

آج ہمیں کراچی کو بنانے اور سنوارنے والوں کا احترام یقینی بنانا ہوگا، ہمیں ان کے وژن کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر سے کراچی کی بہتری کا بیڑہ اٹھانا چاہئے۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی وہ قومیں جو اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں اور اپنے وژن سے بھٹک جاتی ہیں، وہ بہت جلد قدرت کے عتاب کا شکار ہوجاتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین