• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آزاد کشمیر الیکشن: کیا تحریک انصاف اگلی حکومت بناسکے گی؟

آزادکشمیر میں 21جولائی2016ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے والی جماعت مسلم لیگ ن جو گزشتہ چار سالوں سے بلاشرکت غیرے حکومت کر رہی ہے رواں سال انتخابات کا سال ہے۔ اس مرتبہ انتخابی مہم آزادکشمیر ایک سال قبل ہی شروع ہو گئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے انتخابی حلقہ میں رابطہ عوامی مہم پر ہیں انتخابی حلقوں میں جہاں کہیں خوشی یا غمی ہو وہاں پر متوقع امیدوار تمام تر مصروفیات چھوڑ کر بروقت پہنچ رہے ہیں۔ آزادکشمیر کی موجودہ حکومت جو راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں حکومت کر رہی ہے موجودہ حکومت کے اختیارات میں صرف آٹھ ماہ باقی رہ گئے ہیں کیونکہ انتخابی قوانین کے تحت عام انتخابات سے 90دن قبل تمام تر حکومتی اختیارات چیف سیکرٹری کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ 

اس طرح موجودہ حکومت تیس اپریل تک اپنے اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے انتخابی منشور جاری کیا تھا اس میں جو بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے ان چار سالوں میں وہ دعوے پورے نہ ہو سکے۔ اس وقت راجہ فاروق حیدر نے اعلان کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے فوری بعد آزادکشمیر بھر میں بلدیاتی انتخابات پہلی ترجیح کے طور پر کرائیں گے مگر چار سال کے دوران وہ بھی حسب سابق بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ پورا نہ کر سکے۔ 

جس طرح بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی حکومت سردار سکندر حیات کی حکومت اور چوہدری عبدالمجید کی حکومت اپنے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کوئی کام نہ کر سکی راجہ فاروق حیدر نے بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلدیاتی انتخابات نہ کروائے اور نہ ہی کالجز میں طلبہ یونین کے انتخابات کروائے جا سکے۔ راجہ فاروق حیدر نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ آزادکشمیر میں غیرجانبدارانہ طور پر کڑا احتساب کرائیں گے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے مگر چار سال گزرنے کے باوجود راجہ فاروق حیدر کی حکومت کو یہ وعدہ پورا کرنے کا موقع نہیں ملا۔

آزادکشمیر میں انتخابی مہم بہت پہلے شروع ہو گئی ہے ہر ایک حلقہ سے ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر انتخابی مہم کا آغاز کر لیا ہے اکثر حلقوں میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے تین تین چار چار امیدواروں نے مہم شروع کر رکھی ہے اور وہ ایک دوسرے پر متفق ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے آزاد کشمیر کے انتخابات میں اس پارٹی کی شاخ کو کامیاب کروا کر حکومت سازی کروائی جاتی ہے ۔ 

1996ء میں پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومتی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں تو آزادکشمیر میں بھی پیپلزپارٹی کو انتخابات میں اکثریت دلوا کر حکومت سازشی کی گئی تھی اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو1985ء میں جب پاکستان میں اس وقت کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی مسلم لیگ کو بھی حکومت وہاں ملی ہوئی تھی اس وقت آزادکشمیر میں جو انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم کانفرنس نے 19نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس وقت کی تحریک عمل پارٹی جموں کشمیر لبریشن لیگ اور آزاد مسلم کانفرنس پر مشتمل اتحاد جس کی قیادت ریٹائرڈ میجر جنرل حیات خان، کے ایچ خورشید اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کر رہے تھے پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر میں ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اس اتحاد کو پندرہ نشستیں ملی تھیں۔ 

جبکہ سات آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے چونکہ اس وقت کے وفاقی حکومت اندرون خانہ مسلم کانفرنس کی حمایت میں تھی اس طرح سات آزاد امیدواروں میں سے پانچ امیدواروں کو بعض اہم حلقوں کے دبائو پر مسلم کانفرنس میں شامل کروا کر مسلم کانفرنس کے نشستیں 24کروائی گئی تھی اور مسلم کانفرنس کو حکومت سازی کا موقع دیا گیا۔ 

جس کے ذریعے سردار محمد عبدالقیوم خان صدر ریاست اور سردار سکندر حیات خان وزیراعظم آزادکشمیر بن گئے تھے۔2001ء میں بھی پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی وہ آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کو اقتدار دلانا چاہتے تھے چنانچہ اس وقت سردار سکندر حیات خان کو آزادکشمیر کا وزیراعظم بنوا لیا گیا تھا۔ 2006ء میں بھی اقتدار مسلم کانفرنس کو دیا گیا تھا جو کہ اس وقت بھی پاکستان میں جنرل پرویز مشرف حکمران تھے ۔

2011ء میں پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی آزادکشمیر میں بھی پیپلزپارٹی کو بھاری اکثریت دے کر حکومت سازی کا موقع دیا گیا تھا جولائی2016ء میں پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف تھے آزادکشمیر میں اس وقت مسلم لیگ ن کو اتنی اکثریت دلائی گئی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت بھی ششدر رہ گئی اب جبکہ پاکستان میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے اگر جولائی 2021ء تک پاکستان میں یہی صورتحال رہی تو کوشش کی جائے گی کہ آزادکشمیر میں تحریک انصاف کو سامنے لایا جائے۔ 

مگر اس وقت تک تحریک انصاف کی صفوں میں وہ لوگ شامل نہیں ہوئے جو کسی نہ کسی لحاظ سے انتخابی مہم چلاکر کچھ اپنی مدد سے اور کچھ اسلام آباد کی مدد سے نشستیں حاصل کر سکیں۔ اس کے لئے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور ان لوگوں کو جو ہمیشہ وقت آنے پر ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر دوسری جانب چلے جاتے ہیں کیا اس مرتبہ بھی ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے گاکہ نہیں۔ اس کا فیصلہ سال رواں کے آخر تک ہو جائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین