• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل میڈیا کی پوری توجہ موٹر وے کیس پر مرکوز ہے۔ ظاہر ہے کہ اس واردات نے پوری قوم کو صدمے اور احساس تحفظ کے فقدان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجوہات اور اپنے مشاہدات کی طرف بعد میں آتا ہوں فی الحال مجھے ایک اور ٹائم بم کی جانب اشارہ کرنا ہے جو کسی وقت بھی پھٹنے اور تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر مذہبی منافرت کی آگ آہستہ آہستہ بھڑکائی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ حکومت اس خطرے سے آگاہ نہیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی اس خطرے کا ادراک نہیں رکھتیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق نہایت ہوشیاری سے شیعہ سنی منافرت پھیلائی جا رہی ہے، بارود اپنے اپنے مقامات پر رکھا جا رہا ہے اور کسی وقت بھی چھوٹا سا واقعہ اس بارود کو آگ لگا کر بڑا دھماکہ کر سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ منافرت کی سلگتی ہوئی چنگاریوں پر قابو پائیں اور عقلمندی سے ان چنگاریوں کو بجھائیں۔ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیںکہ عقل منداں را اشارہ کافی است۔

آج سے کوئی تین دہائیاں قبل اس وقت کے آئی جی پولیس سے چائے کے پیالی پر گپ شپ ہو رہی تھی۔ میں پنجاب میں صوبائی سیکرٹری تھا اور ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ سے بھی متعلق تھا۔ آئی جی پولیس ایک ذہین، تجربہ کار اور ماہر پولیس آفیسر تھے۔ انہوں نے ایس پی سے لے کر آئی جی تک پنجاب میں طویل عرصہ گزارا تھا۔ ان کی اصل خوبی ان میں قائدانہ صلاحیت تھی جس سے کام لے کر اپنی فورس کا ’’مورال‘‘ اور اعتماد بحال رکھتے تھے اور انہیں متحرک بھی رکھتے تھے۔

پولیس کے دوستوں سے گفتگو ہو تو لامحالہ رخ ’’کرائم‘‘ کی جانب مڑ جاتا ہے۔ وارداتوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان کو گرفتار کیا جس نے چوری کی واردات کی تھی۔ تفتیشی افسر نہایت تجربہ کار پولیس آفیسر تھا، اُسے محسوس ہوا کہ اس ملزم کی یہ پہلی واردات نہیں۔ اس کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہو گا۔ چنانچہ اس نے اُس مجرم کو الٹا لٹکانے اور ’’ڈرائنگ روم‘‘ کی سیر کروانے کے بجائے اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کی۔ اس کی خوب خاطر مدارات کی، اسے اپنے پاس رکھا اور خوف سے آزاد کیا۔ اگلے مرحلے میں دوستانہ گپ شپ میں اُسے ’’پھوک‘‘ دی یعنی اس کی تعریف وغیرہ کی تو اس نے اپنے کارناموں سے پردہ اٹھانا اور واقعات سنانے شروع کر دیے۔ ہمیں مدت سے ایک مجرم کی تلاش تھی جس کا کوئی نشان نہیں مل رہا تھا۔ اس روز ہمیں اس واردات کا اکلوتا مجرم بھی مل گیا۔ اس نے بتایا کہ ایک روز میں چوری کی غرض سے نکلا، نماز فجر سے قبل کا وقت تھا اور میرا نشانہ لاہور کا ایک سرکاری گرلز کالج تھا۔ میں نے ہوسٹل کی دیوار پھلانگی تو سامنے سے ایک طالبہ آتی نظر آئی جس کے ہاتھ میں ’’لوٹا‘‘ تھا۔ وہ غسل خانے کی جانب جا رہی تھی۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ مجھ پر شیطان غالب آ گیا اور میں نے اسے دبوچ کر منہ بند کر دیا اور اس سے زیادتی کی۔ اس کے شور مچانے سے قبل میں پھر دیوار پھلانگ کر غائب ہو چکا تھا۔ دوسرے دن اخبار میں خبر پڑھی کہ اس طالبہ نے خودکشی کر لی۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد غصے اور صدمے سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیس کا مختلف زاویوں سے معائنہ کیا تو احساس ہوا کہ اس میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ وہ عدالت سے رہا ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے زندگی میں پہلی بار پولیس مقابلے کا حکم دیا اور اسے پولیس مقابلے میں ’’پار‘‘ کر دیا۔ آئی جی سارا واقعہ سنا چکا تو میں نے پوچھا کہ آپ کے ضمیر پر بوجھ ہے یا نہیں۔ جواب فوری تھا کہ ہرگز نہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ افلاس اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ سیانے میڈیا دانشوروں کا خیال ہے کہ بے کاری اور افلاس وارداتوں میں اضافہ کے ذمہ دار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چوری چکاری اور ڈاکے تو ہو سکتا ہے کہ بھوک و افلاس کا سبب ہوں لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ معاشرہ گراوٹ کی آخری حد تک گر چکا ہے۔ بچوں، بچیوں کا ریپ اور قتل، ڈاکے کے دوران خواتین کی بے حرمتی، اولاد کا والدین کو خاندانی تنازعوں کے سبب قتل کرنا حتیٰ کہ انسانی پستی کی حد یہ ہے کہ باپ کی اپنی نوجوان بیٹی سے جنسی زیادتی جیسی خبریں پڑھ کر انسان کانپ جاتا ہے۔ گھریلو ملازم لڑکیوں پہ تشدد اور ریپ ہر روز کا وطیرہ بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کو گناہ اور جرم سے کونسا خوف دور رکھتا ہے۔ اول خوف خدا، دوم قانون کا خوف۔ خوف خدا مذہبی تربیت سے پیدا ہوتا ہے اور قانون کا خوف تربیت یافتہ اور اہل حکومتی اداروں کی کارکردگی سے جنم لیتا ہے۔ علماء کرام کے ’’واعظوں‘‘ سے کہیں زیادہ اہم گھریلو تربیت اور سکول کی تربیت ہے۔ ہمارا اصل سانحہ یہ ہے کہ گھروں میں بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کا اہتمام نہیں کرتے، انہیں سچ بولنے اور گناہ سے دور رہنے کی تربیت نہیں دیتے اور سکولوں میں طلبہ کی ذہنی تربیت کا نظام ویسے ہی مفقود ہو چکا ہے۔ رہا قانون کا خوف تو ہماری آنکھوں کے سامنے حکمرانوں نے اپنی سیاسی ضروریات پوری کرنے کے لئے پولیس کے ادارے کو تباہ کیا۔ پولیس نظام کی تباہی اس وقت شروع ہوئی جب ایم پی اے، ایم این اے حضرات میں اسامیاں تقسیم کی جانے لگیں۔ نالائق، کرپٹ اور سفارشیے حضرات کی فوج پولیس کی صفوں میں شامل ہو گئی۔ مزید تباہی کا عمل اس وقت تیز ہوا جب حکمران اقتدار بچانے کے لئے پوسٹنگ ٹرانسفرز اراکین اسمبلی کی خواہشات کے مطابق کرنے لگے۔ بحث طویل ہے لیکن خلاصہ یہ ہے کہ جب معاشرے سے خوف خدا اور خوف قانون ناپید ہو جائیں تو پھر جرائم کا نشو و نما پانا اور پھیلنا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ والدین اور استاد اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ پولیس آزادی، اہلیت اور کردار سے محروم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بہتری کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟

تازہ ترین