آرمی چیف نے کوئی نئی بات نہیں کہی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اور ایک حقیقی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بننا اس کا مقدر ہے ۔ یہ وہی بات ہے جو قائد اعظم سمیت تحریک پاکستان کے تمام رہنما قیام پاکستان سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی مسلسل کہتے رہے ہیں لیکن جنرل کیانی کو ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آوٴٹ پریڈ سے اپنے خطاب میں یہ بات نہایت زوردار انداز میں کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے بعض سیکولر اور لبرل کہلانے والے دانشور اور اہل سیاست ہر تھوڑے دنوں کے بعد بانیان پاکستان کے سیکڑوں ارشادات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ راگ الاپتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان اور ان کے لیڈرکسی اسلامی نظریاتی ریاست کے بجائے محض ایک سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان کی شکل میں مدینہ جیسی اسلامی ریاست کے احیاء کی آرزو کا مسلمانان برصغیر کے دلوں میں کوئی گزر نہ تھا بلکہ انہوں نے محض روٹی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ کا نعرہ تحریک آزادی کے دوران ہندوستان کی فضاوٴں میں کبھی گونجا ہی نہیں، یہ سب بعد میں گھڑ لیا گیا ہے۔
ان حضرات کے نزدیک حصول آزادی کے بعد قرارداد مقاصد کی شکل میں ایک خالص اسلامی نظریاتی ریاست کی تاسیس اور پھر اس کی بنیاد پر دستور سازی کی مختلف کوششوں کے بعد آخرکار 1973ء میں ایک مکمل اسلامی دستور کی تیاری شاید محض مولویوں کی شرارت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے بھی تو آخر مولوی حضرات اپنی اس شرارت میں کامیاب کس بنا پر ہوئے؟ جس دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی اور پھر جس پارلیمان نے چالیس سال پہلے ملک کا موجودہ دستور بنایا، اُن میں تو بھاری اکثریت بظاہر مسٹروں ہی کی تھی۔ یہ مسٹر صاحبان چند مولویوں کو چت کر کے سیکولر آئین بنانے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکے۔حتیٰ کہ ملک کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے، جو دس سال تک ملک کے سیاہ و سپید کے مختار کل بنے رہے، پورا زور لگا کر دیکھ لیا کہ اس ملک کے نام سے ”اسلامی“ نکال کر اسے عوامی جمہوریہ پاکستان کر دیا جائے مگر اپنے تمام تر اقتدار و اختیار کے باوجود وہ یہ نہ کر سکے۔ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا اس کے سوا کوئی جواب نہیں کہ اسلامی دستور کے مطالبے کے پیچھے عوام کی مکمل تائید اور بے پناہ طاقت تھی جسے مسترد کرنا کسی کے لئے ممکن نہ تھا۔ ہمارے دستور میں ریاست کا مقتدر اعلیٰ اللہ رب العالمین کو قرار دیا گیا ہے، اقتدار کو اللہ سے نیابتاً عوام کو منتقل ہونے والی امانت تسلیم کیا گیا ہے جسے منتخب نمائندوں اور پارلیمینٹ کے ذریعے استعمال کیا جانا ہے جبکہ پارلیمینٹ کو اللہ اور رسول کی تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے ہی قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ اس دستور کی رو سے قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا اور اگر ایسے کسی قانون کی نشاندہی کی جائے جو اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو تو اسے یا تو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا یا منسوخ کر دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے دستور کے چار دہائیوں سے پورے اتفاق رائے سے نافذ چلے آنے کے بعد اس دعوے میں بھلا کیا معقولیت ہے اور اس بحث کی کیا گنجائش ہے کہ پاکستان اسلامی نہیں سیکولر ریاست کے قیام کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے واحد قوت محرکہ اسلام ہی ہے۔ اس کے سوا کسی نام پر انہیں متحرک نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار سے آزادی کی وہ تمام تحریکیں جو مسلم ملکوں میں چلیں، اسلام ہی ان کی اصل طاقت رہا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی قیادتوں نے بعد میں بالعموم نفاذ اسلام کے وعدے سے روگردانی کی یا ان پر ایسی غیر جمہوری طاقتوں نے تسلط حاصل کرلیا جو سابق آقاوٴں کے مفادات کی آلہ کار تھیں لیکن اب یہ دور عالم اسلام سے رخصت ہو رہا ہے۔ ایران میں تقریباً تین دہائی پہلے ”لاشرقیہ لاغربیہ، ثورہ ثورہ اسلامیہ“ کے نعروں کے ساتھ سیکولر بادشاہت کا خاتمہ اور اسلامی حکومت کا قیام اور اب عرب دنیا میں بیداری کی دوسال پہلے شروع ہونے والی لہر جس کے نتیجے میں مصر، تیونس اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل ہوئیں اور شام ، یمن، الجزائر اور اردن وغیرہ میں فرسودہ اور جابرانہ نظاموں کے خلاف جاری تحریکیں، ان سب کی اصل طاقت اسلام ہی ہے۔ فلسطین میں سیکولر فکر اور عرب قومیت کی علمبردار الفتح کے مقابلے میں اسلام کا پرچم بلند کرنے والی حماس کو جو بھرپور عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، پوری دنیا اس کی شاہد ہے۔ یہی جذبہ ہے جس کی کارفرمائیاں ہم افغانستان میں دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں جذبہ جہاد سے سرشار خاک نشین افغان عوام نے سوویت یونین کا غرور کچل ڈالا اور اس نئی صدی کے پہلے عشرے میں اللہ کے انہی دیوانوں نے دنیا کی کسی طاقت کی عملی تائید کے بغیر محض ایمان کی قوت سے طالبان کی قیادت میں مغرب کی سامراجی قوتوں کی جدید ترین سازوسامان ، تربیت اور ہتھیاروں سے لیس طاقتور ترین افواج کا دانت کھٹے ہی نہیں کئے بلکہ توڑ کر رکھ دیئے ہیں۔
مسلمانوں کے لئے صرف اور صرف اسلام ہی قوت محرکہ ہے، اس حقیقت کا سب سے نمایاں اور جیتا جاگتا ثبوت آج کا ترکی ہے۔ مصطفی کمال پاشا نے کم و بیش پون صدی پہلے ترکی کے مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے کاٹ کر سیکولرازم سے جوڑنے کے لئے جبر کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن سیکولرازم کا نسخہ کیمیا ترکی کو ترقی، خوشحالی اور عزت و سرفرازی کی راہ پر چلانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ یہاں تک کہ ترکی کی موجودہ قیادت نے اپنی شاندار حکمت عملی ، محنت، دیانت اور خدمت کے ذریعے اپنی قوم کو بتدریج کمال اتاترک کے نظریاتی وارثوں کی فولادی گرفت سے نجات دلائی اور سیکولرازم سے اسلام کی جانب دھیمی پیشرفت کا آغاز کیا۔ چنانچہ یہ قیادت عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئی اور اس کے ہاتھوں آج کا ترکی ایک بار پھر عروج و اقبال کی منزلیں تیزی سے طے کررہا ہے جبکہ مصر اور تیونس میں کامیاب ہونے والی اسلامی و جمہوری قوتیں ترکی کو اپنے لئے مثالی ماڈل قرار دے رہی ہیں ۔ یہ واقعاتی شواہد اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے بالکل کافی ہیں کہ پچھلی پون صدی کے دوران سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے مسلمان ملکوں کی پسماندگی کا اصل سبب یہ رہا ہے کہ ان کے عوام اسلام کی راہ پر چلنے کے آرزومند تھے جبکہ مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلا حکمراں مغرب کی اندھی تقلید پر مصر تھے۔ اس رسہ کشی نے ان ملکوں کو کسی بھی سمت آگے نہیں بڑھنے دیا مگر اب مسلم دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہے جس میں مسلمان عوام اور ان کی قیادتیں یکساں طور پر اسلام کی حقانیت پر ایمان و یقین کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ہمارے موجودہ آرمی چیف اپنے پیشرو کے برعکس اس حقیقت سے پوری طرح ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور اس کا بھرپور اظہار ان کے حالیہ خطاب میں ہوا ہے۔ سیکولر دانشوروں کو بھی اس صورتحال پر آہ و زاری کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے قوت محرکہ صرف اور صرف اسلام ،اللہ سے تعلق اور رسول سے محبت ہے۔ انہیں جغرافیائی و لسانی قومیت ، وطن کی مٹی ، دریاوٴں اور پہاڑوں سے محبت اور سیکولرازم کا درس دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی عاقل و بالغ انسان کو کھلونوں سے بہلایا جائے یا بجلی سے چلنے والی گاڑی کو ڈیزل سے چلانے کی کوشش کی جائے۔