پاکستان کے مزاحیہ فلمی اداکاروں میں اے شاہ شکارپوری وہ پہلے اداکار تھے، جنہوں نے سب سے پہلے بہ طور ہدایت کار ایک فلم ’’حقیقت‘‘ بنائی۔ سرتاج پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی ’’حقیقت‘‘ کے فلم ساز، کہانی نویس اور نغمہ نگار بھی اے شاہ شکارپوری تھے۔ اس فلم کے لیے انہوں نے اے شاہ عاجز کے نام سے گیت لکھے۔ 21 دسمبر 1956ء کو ریلیز ہونے والی ’’حقیقت‘‘ کے ہیرو مسعود اور ہیروئین یاسمین تھیں، جب کہ اے شاہ شکارپوری نے بھی فلم میں اپنا مزاحیہ کردار بخوبی ادا کیا۔ ’’حقیقت‘‘ کی موسیقی غلام احمد چشتی نے دی اور یہ فلم بہ طور ہدایت کار اے شاہ شکارپوری کی پہلی و آخری فلم ثابت ہوئی، جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے بعد دُوسرے مزاحیہ اداکار جو شعبے کی طرف راغب ہوئے، وہ آصف جاہ تھے۔ انہوں نے بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’شیخ چلّی‘‘ بنائی اور اس کا ٹائٹل کردار بھی انہوں نے خود نبھایا۔ یہ پنجابی فلم 10 جنوری 1958ء کو ریلیز ہوئی اور اس فلم سے معروف موسیقار جوڑی سلیم اقبال بھی متعارف ہوئی۔ اس مزاحیہ و نغماتی فلم کی کہانی بھی آصف جاہ نے تحریر کی تھی اور مکالمے نامور ادیب، نقّاد و شاعر ظہیر کاشمیری نے لکھے تھے۔ یہ فلم صرف اوسط درجے کا بزنس کر پائی۔ آصف جاہ نے شیخ چلّی کے علاوہ مزید دو فلموں ’’میم صاحب‘‘ اور ’’مان بھراواں دا‘‘ کی ہدایات دیں۔
تیسرے مزاحیہ اداکار جنہوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں طبع آزمائی کی۔ وہ دلجیت مرزا تھے۔ اُن کی زیر ہدایات بننے والی پہلی فلم ’’برسات میں‘‘28 دسمبر 1962ء کو ریلیز ہوئی۔ اسی فلم کو انہوں نے پنجابی میں ’’ٹھاہ‘‘ کے نام سے دوبارہ بنایا اور ’’برسات میں‘‘ کی نسبت ’’ٹھاہ‘‘ نے بہترین باکس آفس بزنس کیا۔ فلم ’’برسات میں‘‘ کے فلم ساز بھی دلجیت مرزا تھے اور اس فلم کی کہانی بھی انہوں نے اپنے اصلی نام ’’غلام حسین مرزا‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ یہ فلم ناکام رہی۔ اس کی کاسٹ میں اعجاز علائو الدین، نیلو، اسلم پرویز، نیر سلطانہ، سلطان، رخسانہ، ایم اسماعیل، آغا طالش، حمید وائن، اجمل، ببو بیگم اور دلجیت مرزا شامل تھے۔ ’’برسات میں‘‘ کے علاوہ اداکار دلجیت مرزا نے جن فلموں کی ہدایت دیں، اُن میں رواج، جناب عالی، راجہ رانی، ٹھاہ، خبردار، واردات، دُشمن کی تلاش، بدلہ، فٹافٹ، وڈا خان، پہلا وار، مرداں ہتھ میدان اور رُقعہ شامل ہیں۔
ان کی بیش تر فلموں نے کامیابیاں حاصل کیں۔ شعبہ ہدایت کاری میں قدم رکھنے والے چوتھے مزاحیہ اداکار رنگیلا تھے، جن کی زیر ہدایات بننے والی پہلی ہی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ شان دار گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ اس فلم کی کہانی بھی انہوں نے لکھی اور اسے پروڈیوس بھی کیا۔ موسیقار کمال احمد کی بنائی اثرانگیز دُھن پر انہوں نے اپنا ہی لکھا ہوا نغمہ بھی بڑے رچائو کے ساتھ گایا: ’’گا میرے منوا گاتا جا رے، جانا ہے ہم کا دُور‘‘۔ یہ نغمہ فلم میں اداکار اعجاز پر فلمایا گیا۔ ’’دیا اور طوفان‘‘16 مئی 1969ء کو ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس فلم کا مرکزی سینما ’’ناز‘‘ تھا، جہاں کام یابی سے یہ فلم16 ہفتے زیر نمائش رہی اور مجموعی طور پر اس نے اپنی نمائش کے 54 ہفتے مکمل کیے۔ بشیر نیاز کے مکالموں، نعیم رضوی کی عکاسی، کمال احمد کی لاجواب موسیقی، رنگیلا کی عمدہ ہدایت کاری اور اعجاز، نغمہ، رانی، حیدر، زلفی، خلیفہ نذیر، منور ظریف، ادیب، طالش، نجیب اور رنگیلا کی اعلیٰ اداکاری سے آراستہ اس فلم نے خاص و عام کو بے حد متاثر کیا اور رنگیلا کو پہلی ہی فلم کی بے مثل کام یابی سے بڑی تقویت ملی۔
انہوں نے ’’دل اور دُنیا‘‘ بنائی جو پلاٹینم جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ پہلی رنگین فلم اپنی ہدایات میں ’’رنگیلا‘‘ بنائی جس نے گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ان فلموں کے علاوہ رنگیلا نے عورت راج، میری محبت تیرے حوالے، دو رنگیلے، صبح کا تارا، گنوار، بے گناہ،امانت، جہیز، سونا چاندی، نمک حلال، کاکا جی، صاحب بہادر، قلی، خوب صورت شیطان اور کبڑا عاشق کی ہدایات دیں اور ان فلموں میں کام بھی کیا۔
کبڑا عاشق کی غیرمتوقع ناکامی سے وہ کافی دلبرداشتہ ہوگئے تھے، مگر پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور فلمیں بناتے رہے۔ اپنی اعلیٰ کارکردگی کے صلے میں وہ نو مرتبہ نگار ایوارڈز حاصل کرنے میں سرخرو رہے۔
رفیع خاور المعروف ’’ننّھا‘‘ پانچویں مزاحیہ اداکار ہیں، جنہیں ہدایت کار بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 30 مئی 1980ء کو اُن کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’وڈا تھانیدار‘‘ نمائش پذیر ہوئی۔ اس کے فلم ساز محمد نقی خاور، موسیقار بخشی وزیر، کہانی نویس حسنین ہاشمی اور عکاس امتیاز قریشی تھے۔ فلم کی کاسٹ میں ننّھا، ممتاز، کیفی، چکوری، شیخ اقبال، بہار بیگم، رنگیلا، علی اعجاز، قوی، خالد سلیم موٹا، دلجیت مرزا، الیاس کاشمیری، حنیف، جگی ملک وغیرہ شامل تھے۔ ننّھا نے اس فلم کا ٹائٹل رول ادا کیا۔ یہ فلم کراچی کے مین سینما ’’قیصر‘‘ سمیت مضافات کے 13 سینما گھروں پر ریلیز ہوئی اور مجموعی طور پر 17 ہفتے زیرنمائش رہی۔ اس طرح ننّھا بہ طور ہدایت کار اپنی پہلی ہی فلم کو ناکامی سے نہ بچا سکے۔
اطہر شاہ خان جیدی نے فلموں کی نسبت ٹیلی ویژن، ریڈیو پر زیادہ کام کیا۔ وہ مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ لکھتے بھی خوب تھے۔ کچھ ہی فلموں میں انہوں نے بہ طور مہمان اداکار کے اداکاری کی اور پاکستان فلم انڈسٹری کے چھٹے مزاحیہ اداکار بنے، جو شعبہ ہدایت کاری کی جانب آئے۔ انہوں نے صرف ایک فلم ’’آس پاس‘‘ کی ہدایات دیں، جو 21 مئی 1982ء کو سینما اسکرینز کی زینت بنی۔ کراچی میں یہ فلم مرکزی سینما ’’پلازہ‘‘ سمیت مضافات کے 19 سینما گھروں پر ریلیز ہوئی۔ ’’پلازہ‘‘ پر اس نے گیارہ ہفتے مکمل کیے اور مجموعی طور پر47 ہفتے زیرنمائش رہی۔ ’’آس پاس‘‘ کے فلم ساز عادل درّانی، موسیقار نثار بزمی، کہانی و مکالمہ نویس اطہر شاہ خان اور عکاس فاروق بٹ تھے۔ اس فلم میں ندیم نے ڈبل کردار میں عمدہ کام کیا۔ اُن سمیت بابرہ شریف، رانی، راحت کاظمی، عادل درّانی، صاعقہ، جمیل فخری، روشن عطا، رنگیلا، سبحانی بایونس، قربان جیلانی، زینت یاسمین، اسلم ڈار، بے بی صائمہ صلاح الدین اور اطہر شاہ خان نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ریڈیو، اسٹیج، ٹی وی اور فلموں کے معروف مزاحیہ اداکار عرفان کھوسٹ کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘ تھی،جو 13 دسمبر 1985ء کو ریلیز ہوئی۔ کراچی میں اس کا مین سینما ’’بمبینو‘‘ تھا ، جہاں یہ فلم سات ہفتے زیرنمائش رہی اور مجموعی طور پر 52 ہفتے اس نے مکمل کر کے گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ڈائریکٹ حوالدار کے فلم ساز فیاض خان، موسیقار وجاہت عطرے، کہانی نویس، یونس جاوید اور عکاس فاروق بٹ تھے۔ فلم کی کاسٹ میں بابر خان، سونیا، پرویز رضا، فردوس جمال، شبانہ شیخ، جمیل فخری، حامد رانا، عصمت طاہرہ، نجمہ بیگم، فخری احمد، شیبا بٹ، نگینہ خانم، طالش، طارق شاہ، جہانگیر مغل اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔ ڈائریکٹ حوالدار کا ٹائٹل بخوبی نبھانے والے عرفان کھوسٹ ساتویں مزاحیہ اداکار تھے، جو ہدایت کار بنے اور اس فلم کے بعد انہوں نے دُوسری فلم ’’چن ماہی‘‘ کی بھی ہدایات دیں۔12 جون 1992ء کوعیدالاضحی کے موقع پر گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’مسٹر 420‘‘ ریلیز ہوئی اور نامور مزاحیہ اداکار عمر شریف آٹھویں ایسے اداکار بنے، جنہوں نے ہدایت کاری کے جوہر دکھائے اور اپنی پہلی ہی فلم کو شان دار گولڈن جوبلی سے ہمکنار کرانے میں کام یاب رہے۔ اس فلم کے بعد انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری بھی جاری رکھی۔ مسٹر چارلی، مس فیتنہ، چاند بابو،وغیرہ ڈائریکٹ کیں اور ان فلموں میں شان دار اداکاری بھی کی۔
کراچی کے معیاری اور خُوب صورت سینما ’’کیپری‘‘، فلم مسٹر 420 کا مین سینما تھا، جہاں اس فلم نے فقید المثال باکس آفس بزنس کیا۔ اس فلم کے فلم ساز محمد پرویز کیفی، موسیقار ایم اشرف، کہانی و مکالمہ نویس عمر شریف اور عکاس وقار بخاری اور محمد ایوب تھے۔ کاسٹ میں عمر شریف ، روبی نیازی، مدیحہ شاہ، شکیلہ قریشی، عابد علی، نِشو، نرالا، محمود سلطان، عصمت طاہرہ، انیل چوہدری، طارق شاہ، چکرم، خالد ظفر، ارم طاہر، رفعت تجلی اور شکیل صدیقی شامل تھے۔
ببّو برال اب تک کے ایسے نویں مزاحیہ اداکارتھے، جو فلم کے ہدایت کار بھی بنے۔ انہوں نے شہرئہ آفاق اسٹیج ڈراما ’’شرطیہ میٹھے‘‘ کو اسی نام سے فیچر فلم کا نام دیا۔ فلم ’’شرطیہ میٹھے‘‘ کی کہانی و مکالمے بھی ببّو برال مرحوم نے خود لکھے۔ فلم ساز سلیم الحسن، موسیقار افضال حسین اور عکاس جمیل اصغر کی اس مزاحیہ فلم میں ببّو برال، ارم طاہر، مستانہ، نرگس، سہیل احمد، جاوید کوڈو، تانی بیگم، عابد خان، اشرف راہی، رنگیلا، نیّر اعجاز، سلیم الحسن، ارشد ملک شامل تھے۔ ’’شرطیہ میٹھے‘‘ 24 نومبر 1995ء کو ریلیز ہوئی اور اوسط درجے کا بزنس کر سکی۔ اس طرح اب تک نو مزاحیہ اداکاروں کو فلموں کی ہدایات دینے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔