• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ صرف نام کے شوہر ہوتے ہیں ورنہ ساری ذمہ داریاں گھریلو بیویوں والی نبھاتے ہیں۔ اِنہیں کھانا بھی پکانا آتا ہے‘ روٹیاں بھی پکا لیتے ہیں‘ بچوں کو نہلاتے بھی ہیں اور اُن کے ڈائپرز بھی خود ہی بدلتے ہیں۔ شوہروں کی یہ قسم نہایت فرمانبردار ہوتی ہے۔ عموماً ایسے شوہروں کی بیویاں جاب پر جاتی ہیں اور یہ گھر کا نظام سنبھالتے ہیں۔ 

گھریلو شوہر بہت کم غصہ کرتے ہیں‘ اُن کا زیادہ سے زیادہ غصہ اِس بات پر ہوتا ہے کہ برتن دھونے والا ’’لانگ بار‘‘ اتنی جلدی کیوں ختم ہو گیا ہے۔ یہ سبزی لینے بھی جائیں تو ایک ایک آلو دیکھ بھال کر منتخب کرتے ہیں۔ یہ سلائی کڑھائی بھی جانتے ہیں اور کئی دفعہ بیوی کو اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا دوپٹہ ہاتھ سے پیکو کردیتے ہیں۔ 

یہ فارغ وقت میں اون کا گولہ لے کر بچوں کے سویٹر بھی بُن لیتے ہیں۔ گھریلو شوہر کسی بھی مشکل وقت میں بیوی کی مدد کے طلبگار ہوتے ہیں‘ محلے میں اگر اُن کی کسی سے لڑائی ہو جائے تو یہ پہلا فون اپنی بیوی کو کرتے ہیں۔ کئی شوہر نوکری کرنے کے باوجود گھریلو شوہر ہوتے ہیں۔ یہ دفتر سے واپسی پر باہر جانا پسند نہیں کرتے‘ گھر میں ہی رہتے ہیں اور بیوی کے ساتھ مل کر ساس بہو والے ڈرامے دیکھتے ہیں۔ اُنہیں نیوز چینل سے سخت نفرت ہوتی ہے۔ 

کوکنگ شو کبھی نہیں چھوڑتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اِس دوران کاغذ پنسل ہاتھ میں لے کر بیٹھے رہیں۔ گھریلو شوہروں کے عموماً کوئی دوست نہیں ہوتے‘ یہ ہر اہم بات صرف اور صرف اپنی بیگم سے ڈسکس کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بیگم ہی کے مشورے پر عمل کریں۔ 

اِنہیں شاپنگ کے دوران بچے اٹھانا بہت اچھا لگتا ہے لہٰذا جب بھی شاپنگ پر جاتے ہیں بیگم کو گوٹہ کناری والی دوکان کے اندر بھیج کر خود بچوں کو گود میں اٹھائے غبارے والے کے پاس کھڑے رہتے ہیں۔ گھریلو شوہروں میں فیصلہ سازی کی قوت بہت کم ہو جاتی ہے لہٰذا اُنہوں نے اپنا سکوٹر بھی بیچنا ہو تو خریدار سے یہی کہتے ہیں ’’پہلے ذرا مجھے بیگم سے مشورہ کر لینے دیں‘‘۔ یہ انتہائی سگھڑ قسم کے شوہر ہوتے ہیں‘ کبھی سگریٹ نہیں پیتے‘ بوٹ اتارتے وقت جرابیں اِدھر اُدھر نہیں پھینکتے۔ 

ہمیشہ اپنے اور بیگم کے کپڑے خود استری کرتے ہیں‘ بچوں کی نیکر میں الاسٹک بھی خود ہی ڈال لیتے ہیں‘ پوچا بھی خود ہی لگا لیتے ہیں اور بیڈ شیٹ وغیرہ بھی خود ہی بدل لیتے ہیں۔ یہ اپنے کپڑوں کی سلیکشن بھی بیگم سے کرواتے ہیں اور لال رنگ کی پینٹ پر سبز رنگ کی شرٹ پہن کر خوش ہوتے ہیں کہ اُن کی بیگم کی چوائس کتنی اچھی ہے۔ 

ایسے گھریلو قسم کے شوہر صبح دفتر جانے سے قبل موچی کے پاس جانا نہیں بھولتے جہاں انہیں بیگم کی چپل کو ٹانکا لگوانا ہوتا ہے۔ میں بےشمار ایسے گھریلو شوہروں کو جانتا ہوں جو اپنی بیویوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مثلاً میرے محلے میں ایک گھریلو شوہر رہتے ہیں جن کا اصل نام آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا‘ موصوف ’’شکیلہ کے خاوند‘‘ کے نام سے لکھے اور پکارے جاتے ہیں۔ 

شکیلہ کا خاوند بیمار ہو گیا ہے‘ شکیلہ کا خاوند بریانی دے گیا ہے‘ شکیلہ کا خاوند مسجد میں ملا تھا‘ شکیلہ کے خاوند نے نئی موٹر سائیکل لی ہے‘ شکیلہ کے خاوند کی نوکری چھوٹ گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ویسے تو ہمارے ہاں شوہروں کی اکثریت شادی کے پانچ سال بعد خود بخود ’’گھریلو شوہر‘‘ کے منصب پر فائز ہو جاتی ہے لیکن کچھ ’’پیدائشی گھریلو شوہر‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی محفل میں چلے جائیں، کوشش کرتے ہیں کہ بیگم کے ساتھ چپک کر بیٹھے رہیں۔ 

اُنہیں ہر اہم اطلاع بیگم کے ذریعے ملتی ہے ’’شکیلہ بتا رہی تھی کہ امریکہ مریخ پر بھی پہنچ گیا ہے، شکیلہ بتا رہی تھی کہ اس دفعہ سردیاں زیادہ دیر تک رہیں گی‘‘۔ گھریلو شوہر کبھی دوسری شادی نہیں کرتے۔ اُنہیں جیسی بھی بیوی مل جائے یہ ساری زندگی اُس کے نام کر دیتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ بی اے پاس سمجھدار بیوی مل گئی ہے۔ 

گھریلو شوہر ناقابلِ بیان حد تک شرمیلے ہوتے ہیں۔ دفتر میں اگر کوئی اُنہیں چھوٹا موٹا ناقابلِ تحریر لطیفہ بھی سنا دے تو اُن کا منہ سرخ ہو جاتا ہے‘ یہ گھر جاتے ہی بیوی کو بتاتے ہیں کہ آج فلاں نے مجھے یہ لطیفہ سنایا تھا۔ اس کے بعد اگلے ہی دن یہ لطیفہ سنانے والے کولیگ سے قطع تعلق کر لیتے ہیں کیونکہ بیوی انہیں سمجھاتی ہے کہ ایسے گندے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا اچھی بات نہیں۔ 

گھریلو شوہر بیوی کو بھی زوجہ ماجدہ سمجھتے ہیں۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے کہلاتے ہیں تاہم گھریلو شوہروں کو یقین ہوتا ہے کہ اِن کی بیوی پہیہ اور وہ اسٹپنی ہیں۔ بچوں کے رشتوں سے لے کر شادی بیاہ میں سلامی کے معاملات تک گھریلو شوہر بیوی سے دو قدم پیچھے ہی رہتے ہیں۔ ایسے شوہر بعض اوقات اتنے لاچار نظر آتے ہیں کہ بیگم کسی چھوٹی سی بات پہ ناراض ہو جائے تو یہ جوتا ہاتھ میں پکڑ کر اس کے سامنے جھک جاتے ہیں ’’شکیلہ مینوں مار‘ میں تیرا دل دُکھایا اے‘‘۔ 

یہ گھر میں مالٹے بھی لے آئیں تو خود کھانے کی بجائے چھیل چھیل کر بیگم کو پیش کرتے رہتے ہیں اور بیگم بھی ’’پھاڑی‘‘ کھانے کی بجائے ہاف مالٹا حلق میں اتارنا اپنا حق سمجھتی ہے‘ سو جتنی دیر میں یہ مالٹے چھیلتے ہیں‘ مالٹے ختم ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے کئی ایسے گھریلو شوہر بھی دیکھے ہیں جو بیگم کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں اور سالن کم ہو تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنا لقمہ ’’لا لا‘‘ کے کھائیں۔ 

حیرت تو اس بات پر ہے کہ گھریلو شوہروں کی اس ان تھک غلامی کے باوجود اکثر ان کی بیگمات ناراض ہی نظر آتی ہیں۔ یہ بےشک شادی بیاہ کی تقریب میں بیگم کوچاول کی پلیٹیں بھر بھر کر پیش کرتے رہیں‘ بیگم سب کے سامنے انہیں ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ’’وے اسلم! مریں بوٹیاں کیوں نئیں پا کے لیاندا؟‘‘۔ روایتی طور پر مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن گھروں میں مقید رہنے والے مرد اکثر یہ حق کھو بیٹھتے ہیں تاہم ان کی زندگی بڑی خوشگوار گزرتی ہے۔ ٹینشن فری!

تازہ ترین