• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مظفر حنفی

چنچل ہرے دانتوں اور سبزبالوں والی ایک شوخ ننھی جل پری تھی۔ وہ نیلی جھیل کے سب سے زیادہ گہرے حصے میں رہتی تھی۔ ایک دن اس نے دل میں سوچا۔ ’’میں اپنی روزمرہ کی زندگی سے اکتا گئی ہوں۔ اب مجھے سیر کے لئے کہیں باہر جانا چاہئے، میں سوکھی زمین پر جاکر دیکھوں گی کہ وہاں لوگ کس طرح رہتے ہیں‘‘۔

اس نے اپنے دل کی بات دوسری جل پری سے کہی جو اس کی خاص سہیلی تھی۔ اس نے کہا: ’’خدا کے لیے ایسی غلطی نہ کربیٹھنا ورنہ تمہیں بعد میں پچھتانا پڑے گا‘‘۔

لیکن چنچل پری نے اس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادی۔

اسی وقت قریب کے گاوں سے ایک کسان کی لڑکی بالٹی لیے ہوئے پانی بھرنے آئی۔ بڑی پھرتی سے چنچل تیر کر بالٹی میں آگئی۔ وہ اس وقت ایک پانی کے کیڑے کے بھیس میں تھی۔ یہ بھیس اس نے لڑکی کی نظروں سے اوجھل رہنے کے لئے اختیار کیا تھا۔ لڑکی بالٹی بھر کر کھیتوں سے گزر کر اپنے گھر جانے لگی تو چنچل نے سوچا: ’’اب مجھے اس لڑکی سے کچھ چھیڑ خانی کرنی چاہئے‘‘۔ وہ پانی میں خوب زور سے اچھلنے کودنے لگی۔ بالٹی کا بہت سا پانی چھلک کر لڑکی پر گرا۔ اور اس کی قیمتی پوشاک بھیگ گئی۔ جل پری کو بہت مزا آیا۔ کیونکہ اس کے خیال میں یہ بڑا اچھا کھیل تھا۔

جب لڑکی پانی لے کر گھر میں پہنچی تو اس کی ماں اس کے بھیگے کپڑے اور آدھی بالٹی خالی دیکھ کر بہت ناراض ہوئی۔ اور بے چاری لڑکی کے تین چار تمانچے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’پانی کو کیتلی میں انڈیل کر جلدی سے گرم کرو۔ بہت دیر ہو رہی ہے‘‘۔

چنچل نے کبھی پہلے کیتلی کا نام نہیں سنا تھا۔ ’’آہا۔ مجھے کیتلی میں اور زیادہ مزا آئے گا‘‘۔ وہ خوشی کے مارے اچھلنے لگی اور جب لڑکی نے بالٹی سے پانی کیتلی میں انڈیلا تو وہ بھی جلدی سے کود کر کیتلی میں چلی گئی۔

لڑکی نے کیتلی کو انگیٹھی پر رکھا تو چنچل نے پھر اچھل کود شروع کردی۔ لیکن اس بار پانی چھلکانے میں اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی کیونکہ کیتلی کا منہ ڈھکا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی چنچل نے ہنسنا اور اچھلنا کودنا بند کردیا۔ کیونکہ اسے گرمی محسوس ہورہی تھی۔

’’یہ چھوٹی سی کوٹھری آہستہ آہستہ گرم ہو رہی ہے‘‘۔ اس نے سوچا۔ جلد ہی کیتلی خوب گرم ہوگئی۔ اور چنچل جلنے لگی وہ اوپر نیچے، ادھر ادھر کیتلی کے پانی میں ڈبکیاں کھانے لگی۔ لیکن پانی ہر جگہ گرم تھا اور جب پانی ابلنے لگا تو اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ ’’مدد! مدد! کوئی مجھے بچاؤ!‘‘

’’کتنے تعجب کی بات ہے کیتلی میں سے کسی چیز کے بھنبھنانے کی آواز آرہی ہے‘‘ لڑکی نے اپنی ماں سے کہا۔ اتنے میں کیتلی سے پھر ایک چیخ سنائی دی۔ ’’ارے میں جلی۔ کوئی مجھے بچاؤ۔‘‘ اسی وقت پانی میں ابال آیا۔ ڈھکن کچھ اوپر کو اٹھا۔ اور انہیں صاف سنائی دیا ننھی منی آواز میں کوئی کہہ رہا تھا۔ ’’اب میں شرارت نہیں کروں گی۔ خدا کے لئے مجھے باہر نکال لو۔‘‘ لڑکی نے کیتلی کو انگیٹھی سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ اچانک کیتلی کا ڈھکن اچھل کر دور جاگرا اور ایک ہرے دانتوں اور سبز لمبے بالوں والی ننھی لڑکی کود کر باہر آگئی۔ اس کے شانوں پر دو ننھے ننھے پر تھے۔

’’ارے یہ تو جل پری ہے‘‘۔ ماں نے حیرت سے کہا ’’بیچاری بدقسمتی سے پانی کے ساتھ چلی آئی۔‘‘

چنچل جلدی سے مکان سے نکل کر گاوں کی گلیوں میں بھاگنے لگی۔ وہ اس وقت تک بے تحاشا بھاگتی رہی جب تک وہ اپنی گہری نیلی جھیل کی تہ میں نہ پہنچ گئی۔

اور پھر چنچل جل پری نے دوبارہ خشکی پر آنے کی ہمت نہیں کی۔

تازہ ترین