• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر8)

غرناطہ کے ریلوے اسٹیشن پر کِسی بس سروس اڈّے کا گمان ہوا۔ وسیع و عریض ہال میں اِکّا دُکّا لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ شاید ہم پہلے آگئے تھے۔ ہاں، البتہ عقبی سمت شان دار قسم کی کئی ٹرینیں اپنے اپنےٹریکس پر کھڑی تھیں، مگر وہاں بھی مسافروں کی ریل پیل مفقود تھی۔ پھرمزید کچھ لوگوں کی آمد ہوئی، تو بڑے سے ہال کے سنّاٹے اور تنہائی نے دَم توڑا۔ کچھ ہی دیر بعد قطار کے لیے کہا گیا۔ 

ٹکٹ چیک ہوئے اور ہم عمارت کے باہر کھڑی بس میں سوار ہوگئے۔ غرناطہ کا آسمان بے حد روشن، چمک دار اور نیلگوں تھا۔ نشست سنبھالنے پر سکون کا احساس ہوا۔ کھڑکی سے پردہ ہٹاکر باہر جھانکا، تو ہر طرف سونا ہی سونا بکھرا تھا، ہر شے سنہرے رنگ میں نہائی سرشار سی محسوس ہورہی تھی۔’’ الوداع غرناطہ…الوداع پیارے شہر…!!کبھی تم میرے تھے، آج غیروں کے ہو۔‘‘ Antequera پہنچے، تو گاڑی اور پلیٹ فارم تک کا مارجن صرف آدھ گھنٹے کا تھا۔ابھی دو منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ ٹرین آدھمکی اور ہم باآسانی اس میں سوار ہوگئے۔ ہم ایک ایسی ٹرین میں بیٹھے تھے، جس میں نہ کوئی چھک چھک تھی، نہ سیٹیاں، نہ ٹرین چلنے کا مخصوص انداز۔ 

یہ اندازہ لگانا بھی مشکل تھا کہ زمین پر چل رہے ہیں یا بھاگ رہے ہیں۔ دو یا تین اسٹیشن کے بعد ہماری منزل آگئی۔ باہر نکلے، تو ہوائوں کے لطیف اور زورآور جھونکوں نے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ’’لو، مَری جاتی تھی ناں اِس قرطبہ کے عشق میں۔ تو اب آہی گئی قرطبہ۔ ہاں، علامّہ اقبال بھی تو پور پور اس کی چاہت میں غرق تھے۔ایسے تو نہیں کہا تھا، مولانا غلام رسول مہر سے کہ ’’مرنے سے پہلے قرطبہ ضرور دیکھو۔‘‘ چلو خوش آمدید، آخراپنے اسلاف کے گم شدہ گھر آئی ہوں۔‘‘

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بئ ثغور (قسط نمبر8)
کوریڈار اپلازا کا ایک منظر

ٹیکسی میں بیٹھے تو جذبات کا بہائو زوروں پر تھا۔ جس مانوس منظر نے سب سے پہلے توجّہ کھینچی ،وہ جابجا کھجوروں کے درختوں کی بہتات تھی۔ ان بلندوبالا درختوں نے بھی ستم ڈھایا، کیا کچھ یاد نہیں دلایا۔ تیز ہوائوں کے سرکش جھونکے ان کی دراز شاخوں کو کِس طرح پٹخنیاں دے رہے تھے، شاید اُسی طرح جیسے یہاں کے عہد ساز موروں کو ملی تھیں۔ تاہم اقبالؔ تو لبوں پر آہی گیا تھا؎میری آنکھوں کا نور ہے تُو.....میرے دل کا سرور ہے تُو.....اپنی وادی سے دُور ہوں مَیں......میرے لیے نخلِ طور ہے تُو.....مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا.....صحرائے عرب کی حُور ہے تُو.....پردیس میں ناصبور ہوں مَیں..... پردیس میں ناصبور ہے تُو-پھر بڑی شدّت سے امیّہ خاندان کا چراغ، اکیس سالہ دلیر، جی دار عبدالرحمٰن یادوں میں اُبھرا،جسے خوش قسمتی اور بلند بختی، السفاح کے خوں خوار ہاتھوں سے بچالے گئی تھی کہ وہ تو امویوں کا تخم مارنے پر تُل گئے تھے۔

السفاح، پیارے نبی،حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، حضرت عباسؓ کی نسل سے تھا۔ یہی خاندان عباسیہ کی بنیاد رکھنے والا تھا۔جغرافیائی اعتبار سے اُندلس کے دو حصّے انتہائی اہم اور خصوصیت کے حامل ہیں۔ شمال میں موسم سرد اور علاقے کا بیش تر حصّہ کاشت کے اعتبار سےغیر موزوں ہے ۔ وہیں جنوب میں آب وہوا گرم، زمین زرخیزاور پانی کی افراط ہے۔ اُندلس کے جزیرہ نما کو طارق بن زیاد اور اس کے بربری ساتھیوں نے فتح کیا تھا۔ یوں بربریوں اور عربوں میں کینہ بھی تھا اور شعورِسیاست بھی۔ جب اسلامی سلطنت میں عباسی غالب آئے اور امویوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے، تواموی خاندان کا ایک شہزادہ، عبدالرحمٰن جان بچانے کے لیے فرار ہوگیا۔ بربری ساحلوں پر اُمید اور خواہشوں کی بارآوری کی دعائیں مانگتا اُندلس آپہنچا۔ یہاں بنو امیّہ کے مفرور شاہی خاندان کے لوگوں اور غلاموں نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

اس نے’’ محبّت اور جنگ میں سب کچھ جائز ‘‘کے مصداق، قرطبہ کے گورنر، یوسف کو پہلے دھوکے سے صلح پر آمادہ کیا، بعدازاں شہر پر قبضے کے بعد اُندلس کے سارے اسلامی علاقے کا فاتح بن گیا۔ ان سب چھوٹی ،بڑی ریاستوں کے سرداروں کے سر کاٹ کر عباسی خلیفہ المنصور کو بھیج دئیے کہ’’ دیکھ لو انہیں۔ ہاں، تم نے بغداد کو علم و ادب کا گہوارہ بنایا ہے، تو قرطبہ بھی ویسا ہی بنے گا، دیکھ لینا۔‘‘ ایک مدّت لگی اُسے شمالی علاقوں کے بَربروں کو زیر کرتے۔ کہیں یمنیوں کو ٹھکانے لگاتے،قاعدے قانون بناتے۔ کھجور کا درخت لگانا بھی اُسی کا کارنامہ تھا۔ وہ شاعر بھی تھا،اور اسے جب اپنا وہ باغ یاد آتا، جو اس نے دمشق میں بنوایا تھا، جس میں کھیلتے ہوئے اس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا، تو ان لمحات کو اشعار کی صُورت اس طرح بیاں کرتا؎سُن اے ہم وطنِ نخل میرا بیاں.....میری طرح تُو بھی ہے غربت میں ہاں.....تیرا بوسہ لیتی ہے غربی ہوا.....دکھاتا ہے تُو اپنی مشرقی اَدا.....خیالِ وطن سے نہیں ہے قرار.....بلا قصد رہتی ہے آنکھ اشک بار۔

گاڑی ،شہر کی مرکزی شاہ راہ سے گزرنے کے بعد ایک گلی میں مڑی اور SELV نامی ایک خُوب صُورت، شان دار ہوٹل کے سامنے رُک گئی۔ یہاں ایک کمرا حاصل کرنے کےبعد ٹہلتے ہوئے قریبی شاہ راہ پہنچے، جہاں انواع و اقسام کے کھانے پینے کی دکانوں کی بہتات تھی، لیکن مصیبت یہ تھی کہ کھانوں کے ناموں سے آشنائی تھی، نہ ان کے اجزائے ترکیبی کا علم۔حلال و حرام کی بھی کوئی تمیز نہیں تھی، بس اللہ بیلی والا ہی معاملہ تھا۔بے حد محتاط انداز میں شوکیسزمیں سجی چیزوں کو اپنے اندازوں سے پرکھتے ہوئے کچھ چیزوں کا آرڈردے دیا۔کوئی گھنٹے بھر انتظار کے بعد کھانا نصیب ہوا اور ابھی ایک لقمہ اُٹھایا ہی تھا، تو جیسے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔پشت پر ایک خوب صورت سی لڑکی اکیلی بیٹھی تھی۔اُسے دِکھا کر پوچھا کہ ’’اس میں پورک تو نہیں؟‘‘ اُس نے گوشت کے ٹکڑوں کی طرف دیکھا اور کندھےاُچکاتے ہوئے مُسکرا کر کہا’’وہ تو ہے۔‘‘یہ سنتے ہی ہم تینوں کے ہاتھ بیک وقت پلیٹوں سے اُٹھ گئے۔ماتھے پر ہاتھ مارا۔خیر،بھول چُوک تو ہر معاملے میں معاف ہے۔ 

یہ سوچ کر خود کو سمجھایا اور کائونٹر پر جاکرمسکین صُورت بنا کر بپتا سنائی کہ’’ ہم تو اسے نہیں کھاسکتے۔‘‘کائونٹر پر بیٹھے شخص نےاطمینان سے ہماری بات سننے کے بعد نہ صرف معذرت کی، بلکہ کچھ دیر بعدپیزا اور فرائیڈ فرائزبھی بھجوادئیے۔چلو ،پیٹ پوجا تو ہوگئی۔اب کیا کرنا ہے؟یہ تو طے تھا کہ مسجدِ قرطبہ تو کل صبح دیکھنی ہے۔ہوٹل پہنچ گئے۔ کچھ دیر آرام کے بعد مَیں اکیلے ہی نیچے اُتری اور کائونٹر پر موجود لوگوں سے کچھ رہنمائی حاصل کی، ٹکٹ بھی اُن ہی سے مل گئے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بس کہاں سے ملے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اِس سروس کے دورُوٹ ہیں،جن کے بندھن رنگوں سے جوڑے گئے ہیں۔نمبر ایک نیلی لائن والا ہے، جس کی منزل عربوں کے حمام(Baths of Caliphates)سے شروع ہوتی ہوئی مسجد قرطبہ تک لے آتی ہے اور سرخ لائن والی رائوڈیل پینارومیکا (Rio Del Panoromica)سے شروع ہوتی دریا کی سیر کرواتی ہے۔

ساری کارروائی بُھگتا کر جب کمرے میں آئی، تو دونوں نے کہا،’’ اب جب کہ دن ڈھلنےوالا ہے، تو ہم لوگ کتنا گھوم پھر لیں گے؟17 یورو کا ٹکٹ۔نری فضول خرچی ۔ کل صبح یا پرسوں کا رکھ لیتیں۔‘‘ان دونوں کی باتیں نظرانداز کرکے نیچےآگئے۔’’ چلو جی بس تے چڑھوتے موجاں لُٹّو۔‘‘یہ ہوپ آن اور ہوپ آف بڑی شان دار ڈبل ڈیکر دُلہن کی طرح سجی سنوری قرطبہ کی سڑکوںپر مٹر گشت کرتی دل کو بہت بھائی تھی۔چھوٹا سا شہرقرطبہ، کوئی سوا تین لاکھ افراد پر مشتمل، مگر کتنا خوب صورت اور دل موہ لینے والا۔ایک ڈھلتی سہ پہر کا حُسن، اس پر شہر کا بانکپن، دل بے اختیار ہی جھوم اٹھا کہ ’’مَیں قرطبہ میں ہوں۔‘‘یہ شہر دریائے الکبیر( (Guadalquivirکے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ پشت پر پہاڑی سلسلہ درختوں اور سبزے سے بھرا پُرا کسی شاہ کار پینٹنگ کا ساتاثر دیتاہے۔ 

یہ اسپین کا دوسرا بڑا اور لمبا دریا ہے۔ جزیرہ نمائے ابرائیین میں یہ پانچواں لمبا دریا شمار ہوتا تھا۔گویاپورا شہر ہی فنِ تعمیر کا دل کش نمونہ ہے، مگردریائے الکبیر تو ہر دَور اور ہر عہد کی داستان سُناتاہے۔ اس سلونی شام میں بھی اس نے ہر دَور، ہر عہد کی داستانیں سنانی شروع کردیں۔ رومن زمانے سے جو شروع ہوا۔ بے چارہ کتنی بار پورپور زخمی ہوا۔ مرہم پٹّی، باقاعدہ علاج معالجہ، تن درستی اور پھر کسی نئے عتاب کا شکار۔ بہرحال، اِس وقت تندرست و توانا،نو بہ نوہنستا مسکراتاہے۔ ملحقہ فٹ پاتھوں پر اجنبی دیسوں سے آنے والوں کو پیار سے دیکھتا اور انہیں اپنے محرابی دروازوں کا دیدار کرواتاہے،اپنی پن چکّیوں کی طرف متوجّہ کرتااور بتاتا ہےکہ دیکھو، موروں نے میرے پانیوں کواستعمال کرتے ہوئے شہر کو کیسے گل و گلزار بنا رکھا تھا۔ 

سچّی بات ہے، یہ بھی میں نے اسی کی زبانی جانا تھا کہ وہ جواِس صُورت قائم ودائم ہے، تو یہ کارنامہ بھی اُسی عبدالرحمٰن اوّل ہی کے کھاتے جاتا ہے۔ اس کے عین درمیان موجود سینٹ رافیل کا مجسمہ دیکھنے پر اُکسانے میں بھی اسی الکبیر ہی کا ہاتھ تھا۔الکبیر ہی نے ایک اور بات بھی بتائی کہ جب عبدالرحمٰن اوّل نے میری صُورت کو نیا رنگ دیا، یعنی مجھے ایک طرح نیا جنم دیا، تو جانتی ہو قرطبہ کے باسیوں نے مدہم مدہم لہجے میں کہنا شروع کردیا کہ خلیفہ اس پر اتنا ڈھیر سارا پیسا اپنی شکارپارٹی کے لیے خرچ کررہا ہے۔ وہ شکار کا بہت شوقین تھا اور اُسے اُسی راستے سے جانا ہوتا تھا۔مزے کی بات دیکھو، اس بات کا اُسے بھی علم ہوگیا تھا۔ وہ دلیر اور ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ مہربان اور نرم دل بھی تھا۔ 

جانتی ہو ، اُس نے خود سے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی اِس پُل سے نہیں گزرے گا اور اپنی آخری سانس تک یہ عہدنبھایا۔ ویسے تو میں عبدالرحمٰن اوّل کی آل اولاد کا بہت ہی ممنون ر ہوں کہ ہر ایک نے مجھ پر توجّہ دی۔ تاہم، عبدالرحمٰن سوم نے ان محرابوں کی فنی مضبوطی کے لیےبہت سی تبدیلیاں کیں اور اِسے فنِ تعمیر کا نمونہ بنادیا۔عمارتوں کے جلو میں پارکس، باغوں میں کِھلے رنگا رنگ پھولوں، فوّاروں، جھیلوں، مجسّموں اور روشوں پر چلتے پھرتے انسانوں نے اِس سہانی شام کو ہزار رنگوں سے رعنائی دی۔شاپنگ پلازے،شان دار اسکوائرز، چرچ کیتھڈرل اور عربوں کی یادگاروں کے بچے کھچے ٹکڑے، جنہیں ہم نے صرف اندازوں ہی سے جانا تھا کہ یہ اُن ہی کی نشانیاں ہیں۔

شہر کا قدیمی حصّہ اپنی تعمیری انفرادیت،سفیدی کی تابناکی سے کچھ زیادہ ہی دل کش نظرآرہا تھا۔ یہاں اگر تھوڑا سا ذکر اس عبدالرحمٰن دوم کا نہ ہو، توزیادتی والی بات ہوگی۔ اُس نے قرطبہ کو ہارون الرشید کا بغداد بنادیا تھا۔ فنون لطیفہ کا دل دادہ، موسیقاروں،گائیکوں اور شاعروں کا قدردان۔ بغداد کے شہرئہ آفاق مغنّی، اسحاق موصلی کا شاگرد ،زریاب اس کے دربار کی زینت بنا تھا۔ بغداد سے زریاب کا قرطبہ آنا بھی ایک دل چسپ داستان ہے۔ شاگرد اور استاد دونوں نے ایک دن ہارون الرشید کے سامنے گاتے ہوئے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کچھ اِس انداز میں کیا کہ استاد تو منہ تکتا رہ گیا،زریاب سماں باندھ کر اُستاد سے بازی لے گیا۔اسحاق موصلی سے اب شاگرد کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ بے اختیار ہی کہہ اُٹھا ۔ ’’یا تو اِس ملک کو چھوڑدو یا پھر مرنے کے لیے تیارہوجائو۔‘‘زریاب اُندلس آگیا۔ دربار میں خُوب پذیرائی ہوئی، اُس کی ذہانت اور فن پر عبور نے سلطان کو بہت متاثر کیا۔

رومن برج کو ایک بار پھر چاہت سے دیکھا۔گو خودروگھاس پھونس، جھاڑیاں، پودے سب اُس میٹھی سی شام میں پانیوں کے سیاہی مائل اور دھوپ کے طلائی عکس میں گھل مل کر ایک عجیب سا حُسن فضا میں بکھیر رہے تھے۔آبِ رواں کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے، کسی اور زمانے کا خواب مسجدِ قرطبہ کی نشان دہی ہورہی تھی۔دل مچل رہا تھا، یہاںاُترنے اور مسجد میںداخل ہونے کو،مگر نہیں ابھی نہیں۔بس اُسے ہیلو ہیلو کہا ۔منہ زور ہوائوں کو پیغام دیا کہ’’ کہنا، کل تم سے ملاقات کے لیے آتے ہیں۔‘‘کسی بھی شہر یا جگہ کا کوئی قیمتی لینڈ مارک مجھے ہمیشہ کوئی اہم سوغات، کسی نادر تحفے کی مانند محسوس ہوتاہے۔

مسجدِ قرطبہ کے لیے بھی میرے جذبات ایسے ہی احساسات کے غمّاز تھے۔ہوٹل والوں سے جو نقشے اور بروشرز ملے تھے، اُن کے ہلکے پھلکے مطالعے نے قلاہوراCalahorra میوزیم کے بارے بھی مختصراً بتایا کہ اس کے یہ کنگورے والے بلند وبالا مینار 1369ء میں ہنری دوم نے بنوائے تھے۔پُل کے آخری سرے پر بس رُکی ، تو ہم نیچے اُتر آئے۔سبک خرامی سے بہتے دریا کے پانیوں سے تیر کر آتی ہوائوں کی خُنکی مسرور کن تھیں۔ پَن چکّیاں کچھ کہانیاں سُناتی تھیں۔پُل کے آخری سرے پر دو منزلہ عمارت والا چھوٹا سا میوزیم نظر آیا،جس کی صورت سو فی صد قلعے کی سی تھی۔یہ بھی پتا چلا کہ ’’قلاہورا ‘‘کا مطلب آزاد قلعے کے ہیں۔ اندر گئے، توتین قوموں کے تہذیبی و ثقافتی وَرثے کا حامل میوزیم سامنے تھا۔

نویں سے تیرہویں صدی تک اس عظیم الشان شہرنے مسلمانوں،عیسائیوں اور یہودیوں کے تعاون سے جس شان دار تہذیب کو جنم دیا اور اظہار عبدالرحمٰن سوم نے اِس میں جو شان دار اضافے کیے، وہ قابلِ قدر ہیں۔سچّی بات ہے، تحریر شدہ مواد میں بڑے کُھلے دل سے اِس بات کا اعتراف تھا کہ یورپ کے لوگوں کے لیے اُندلس کی یہ حیرت انگیز ترقی بہت حیران کُن ہے۔اُس پینٹنگ نے بڑا متاثر کیا، جس میں ایک پادری اُندلس کے حکمران کو کِسی بادشاہ کی طرف سے بھیجا گیا تحفہ پیش کررہا ہے۔ 

یہاں مسجد قرطبہ کا ماڈل بھی موجود ہے۔ بڑے کشادہ کمرے میں علم و فن کے میدان کی ایجادات، جن میں آلاتِ زراعت، موسیقی، صنعت و حرفت، آلاتِ جرّاحی اورآلاتِ موسیقی کیا کچھ نہیں تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ اِن سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا بندوبست بھی بڑا اعلیٰ اور جدید تھا۔ آپ سے ابو قاسم الزہراوی، میمون، ابنِ رُشد اور ابنِ عربی کے مجسّمے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر بات چیت کرتے ہیں اور آپ اُن سے ان کے کارناموں کا احوال سنتے ہیں۔

قلاہورامیوزیم سےباہر نکلے تو طبیعت ہشّاش بشّاش تھی۔ سیما کا اصرار بڑھنے لگاکہ یہیں اُتر جائو، سامنے خُوب صُورت مناظر تھے، ہم نے بھی اُترنے میں دیر نہ کی۔ معلوم ہوا کہ کوریڈارا پلازا ہے۔ بھئی، کیا بات ہے اِس پلازے کی۔ اپنی وسعت اور عمارتی حسن کے اعتبار سے ایک نادر شے نظر آتی ہے۔ پلازا کے بارے میں کہا گیا کہ پورے اندلیسیہ میں اِس جیسا کوئی نہیں، تو بھئی ہمیں بھی ماننا پڑا، کیوں کہ اس پر نظر پڑتے ہی ہماری نظریں بھی بھونچکی سی ہوکر پتھرانے لگی تھیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین