گلگت بلتستان میں انتخابات 15 نومبر 2020کوہورہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں بھرپورحصہ لے رہی ہیں۔بڑی جماعتوں جن میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ،اپوزیشن کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی جمعیت علمائے اسلام جس کے سربراہ مولانافضل الرحمن ہیں۔اپنے اپنے امیدواروں کومیدان میں اترنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ ادھر حکومت پاکستان گلگت بلتستان کوپاکستان کاصوبہ بنانے کی تیاریاں کررہی ہے ۔کہاجارہاہے کہ پہلے مرحلے میں گلگت بلتستان کوپاکستان کاعبوری صوبہ بناکراس کے لئے قومی اسمبلی اورسینٹ میں نشستیں مختص کی جارہی ہیں۔
ذمہ دارذرائع کاکہناہے کہ اگروفاقی حکومت گلگت بلتستان کوصوبہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تو دوسرے مرحلے میں آزادکشمیرمیں بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں ضم کردیاجائے گا۔اس حوالے سے اندرون خانہ تیاریاں کی جارہی ہیں۔
آئین پاکستان میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو پاکستان کاحصہ بنائے جانے پرکام ہو رہا ہے۔کشمیری قیادت کااس حوالے سے سخت اختلاف ہے ۔کشمیری قائدین کاکہناہے کہ وہ کسی صورت گلگت بلتستان کوپاکستان کاصوبہ نہیں بننے دیں گے ۔اس سلسلے میں آزادکشمیرسے آوازیں اٹھناشروع ہوگئی ہیں بالخصوص آزادکشمیرکی وکلاء برادری نے گلگت بلتستان کوصوبہ نہ بنانے کے حوالے سے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر بار کونسل، آزاد جموں وکشمیرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آزادجموں وکشمیرہائی کورٹ بارایسوسی ایشن تمام ضلعی بارایسوسی ایشنز سب ڈویژنل اور تحصیل بار ایسوسی ایشن نے متفقہ احتجاج کیاہے۔
آزاد کشمیر بھرکی وکلاء برادری نے تین اکتوبرکواسلام آبادپریس کلب میں بھرپور احتجاجی مظاہرہ کر کے حکومت پاکستان کو خبردار کیاہے کہ اگرگلگت بلتستان کوپاکستان کاصوبہ بنایا گیا تو آزادکشمیر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ آزاد کشمیرکی وکلاء برادری نے مطالبہ کیاہے کہ گلگت بلتستان اورآزادکشمیرکوملاکرایک انقلابی حکومت حق عمل میں لایاجائے۔ صدراور و زیراعظم کے عہدوں پرگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے باری باری صدر و وزیراعظم لیے جائیں۔
سپریم کورٹ مشترکہ بنایاجائے جس کے چیف جسٹس کا تقرر بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے باری باری کیاجائے۔ان وکلاء نے کہاکہ آزاد کشمیر کے سپریم کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس جن کواس عہدہ پرفائزہوئے چھ ماہ کاعرصہ گزرچکاہے اور آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس جن کواس عہدے پر فائز ہوئے دس ماہ کاعرصہ ہوچکاہے مگر اس وقت ان دونوں چیف جسٹس صاحبان کومستقل نہیں کیاجارہاہے ۔
ان وکلاء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گلگت بلتستان اورپاکستان کوعبوری صوبہ بنانے اور آزادکشمیر کو پاکستان کے مختلف صوبوں میں مدغم کرکے تقسیم کشمیر پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دوچیف جسٹس صاحبان کومستقل نہیں کیا جارہا ہے ،وکلاء برادری نے مطالبہ کیاہے کہ ان دونوں چیف جسٹس صاحبان کومستقل کیاجائے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے کے مطابق اعلیٰ عدالتوں کے ججزکی آسامی تیس دن سے زائد خالی نہیں رکھی جاسکتی، وزیراعظم پاکستان جوکشمیر کونسل کے چیئرمین بھی ہیں کوچاہیے کہ فوری طورپراپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرکے آزادکشمیرسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کومستقل کریں۔
تاکہ آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں خالی ایک مستقل آسامی اورآزاد کشمیر ہائی کورٹ میں چھ مستقل خالی آسامیوں کو جلداز جلد پر کر کے ججزکی تعیناتیاں کی جاسکیںاورزیرالتواء مقدمات کو جلد یکسو کیاجاسکے۔ماضی میں حکومت پاکستان اور حکومت آزادکشمیرکے درمیان گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھاجس کے ذریعے کچھ وقت کے لئے گلگت بلتستان کے انتظامی اختیارات وفاقی حکومت کوسونپے گے تھے اس معائدے میں گلگت بلتستان کوجموں کشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔
اس معائدے پراس وقت کی پارلیمانی جماعت مسلم کانفرنس کے نگران چوہدری غلام عباس اس وقت کے صدرریاست سردارمحمدابراہیم خان اوراس وقت کے وفاقی وزیرمشتاق احمدگرمانی جووفاقی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے کی نمائندگی کررہے ہیں۔اب اگرگلگت بلتستان کوصوبہ بنایاجائے گاتویہ معائدہ کراچی کے کھلم کھلا خلاف ورزی ہو گی، وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت تمام سیاسی جماعتیں عسکری تنظیمیں مذہبی جماعتیں طلبہ تنظیمیں اورہرمکتبہ سے تعلق رکھنے والے زعماء پرمتفق ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ نہ بنایاجائے۔
ان حلقوں نے خدشہ کا اظہارکیاہے کہ جس طرح ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے پانچ اگست 2019ء کوآئین دفعہ 370اور35اے کوختم کرکے مقبوضہ کشمیرکوہندیونین میں شامل کردیاتھااوراس فیصلے کوآج تک کشمیری عوام نے قبول نہیں کیاہواہے اب پاکستان کی موجودہ حکومت اس سے چارہاتھ آگے جاکرکشمیرکی موجودہ صورتحال کوتبدیل کرنے کے درپے ہے اس طرح تقسیم کشمیرکے فارمولے پرعملدرآمدکروانے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں جومسئلہ کشمیرکے لئے نقصان دہ ہیںاورکشمیریوں کے بنیادی حق حق خودارادیت سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے جس کوکشمیری عوام کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
آزاد کشمیرکی موجودہ حکومت جوراجہ فاروق حیدرخان وزیراعظم آزاد کشمیرکی قیادت میں گزشتہ چارسالوں سے نظام حکومت چلارہی ہے اب اس کی مدت ختم ہونے کوہے تیس اپریل 2021ء تک اس حکومت کے اختیارات قائم رہیں گے اس کے بعدالیکشن کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی۔اور اختیارات چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کو منتقل ہوجائیں گے اس طرح حکومت آزاد کشمیر کے پاس صرف ساتھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ چارسالوں کے دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے پورے آزاد کشمیر میں کوئی ایک میگاپراجیکٹ بھی نہیں دیانہ ہی منشورکے مطابق بلدیاتی انتخابات کروائے نہ ہی آزادکشمیرمیں احتساب کیاگیانہ ہی میرٹ قائم رکھاگیا۔صرف این ٹی ایس کے تحت محکمہ تعلیم پرائمری اورجونیئراساتذہ کوبھرتی کیاگیااس سے اوپرکی آسامیوں پراوردیگرتمام محکموں میں نہ ہی کوئی این ٹی ایس ہوااورنہ ہی میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کو ملازمتیں دی گئیں۔