اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت اور وزیراعلی محمود خان کے خلاف کوئی بڑا سکینڈل منظرعام پر نہیں آیا اور ماضی کی نسبت حکومتی معاملات کوقانون اور قواعدوضوابط کے مطابق چلایا جارہا ہے ۔محمود خان وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیںجس سے ان کی کارکردگی روزبروز بہترہورہی ہے امید کی جارہی ہے کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں خیبرپختونخوا میںسرکاری امور میں عوام کو ریلیف مل سکے گا ۔ تاہم نچلی سطح پر عوام کو سرکاری دفاتر میں ابھی تک تبدیلی نظر نہیں آرہی جس کے لئے تمام نظام کو ای گورننس کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام آن لائن ہی تمام امور سرانجام دیں اور انھیں دفاتر آنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
محمود خان سی پیک میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں جس کے باعث صوبے کے چھ منصوبے پچھلے سال سی پیک میں شامل ہوئے جبکہ نومبر میں مزید تین منصوبوں کی شمولیت سے خیبرپختونخوا میں معاشی سرگرمیاں مزید تیز ہوں گی ۔صوبائی حکومت نے صوبائی محکموں میں مانیٹرنگ اور احتساب کے لئے پراونشل انسپکشن ٹیم کو بھی کافی متحرک اور فعال بنایا تھا لیکن پھر اچانک پراونشل انسپکشن ٹیم کے سربراہ احمد حسن کو تبدیل کردیاگیا حالانکہ صوبائی انسپکشن ٹیم نے بعض اہم انکوائریاں مکمل کرکے احتساب کے عمل کو تیز کیا۔وزیر اعلی محمود خان نے سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے چیف سیکرٹری کو متعلقہ افسروں کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی تھی لیکن انسپکشن ٹیم کی سفارشات پر عمل درامد نہیں ہوسکا اور فائلیں متعلقہ محکموں میں پڑ ی ہیں ۔
دوسری جانب ملکی سیاست میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جارہاہے حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے پر تندو تیز حملے کررہی ہیں اپوزیشن نیب کے احتساب کو انتقام قرار دیکر احتجاج کی منصوبہ بندی کررہی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن رہنمائوں کو کرپٹ قرار دے کر انھیں سزائیں دلانے پر مصر ہے ۔خیبر پختونخوا میں بھی سیاسی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں سیاسی کارکنوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے جس سے آنے والے چند ماہ میں معاملات بگڑ سکتےہیں پاکستانی سیاست میں عدم برداشت کا کلچر تیزی سے فروغ پارہاہے جس کے باعث سیاسی رواداری اور برداشت کا کلچر ختم ہوتا جارہاہے۔
سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور اب کھلے عام بدزبانی اور نازیبا گفتگو کی جارہی ہے جس میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا جارہا ہے جوں جوں اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی تحریک میں تیزی آئے گی سوشل میڈیا پر گالم گلوچ بھی بڑھ جائے گا ۔اپوزیشن کو احتجاج کرنے کا حق ہے اور حکومت کو اس حق کو تسلیم کرنا چاہیے لیکن احتجاج کو پرامن رکھنے کی اشد ضرورت ہے احتجاج کے دوران قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی جانب سےسخت لب ولہجہ اور شدید نکتہ چینی کے باعث اب کارکن بھی سوشل میڈیا پر سخت زبان استعمال کررہے ہیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ورکروں میں برداشت کی قوت پیدا کرنی چاہیے ۔سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی سیاست میں بردباری اور حوصلے کا درس دینا چاہیے اور کارکنوں کی تربیت کرنی چاہیے ۔پاکستان نازک اور مشکل حالات سے گزر رہا ہے سی پیک کے باعث مغربی ممالک خصوصا امریکہ اور ہمسایہ ملک بھارت سازشوں میں مصروف ہیں دوسری جانب اب ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس حوالے سے بعض مذہبی رہنمائوں کے تندوتیز خطاب معاملات کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔
خیبرپختونخوا میں دو سال قبل ایک سازش بے نقاب ہوئی تھی جس میں فاترالعقل اور منشیات استعمال کرنے والوں کو مہرے کے طورپر استعمال کرکے افراتفری پھیلانے کی سازش کی گئ تھی لیکن خیبر پختو نخوا کی حکومت اور پولیس نے اس سازش کو ناکام بنایا ۔ملک کی بیشتر سیاسی و مدہبی جماعتوں کے قائدین کی اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے لہٰذا ان جماعتوں کے ورکروں کی بڑی تعداد بھی خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتی ہے۔اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں خیبرپختونخوا کا کلیدی کردار ہوگا ماضی کے تمام جماعتوں کے اسلام آباد لانگ مارچ میں بھی صوبے سے ورکروں کی بڑی تعداد شامل رہی ہے۔
تحریک انصاف کے دھرنے اور لانگ مارچ کے دوران بھی خیبرپختونخوا سے بڑی تعداد میں کارکن اسلام آباد پہنچتے تھے ۔ خیبرپختونخوا نیب سے خبر لیک ہوئی کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف غیر قانونی اثاثہ جات پر انکوائری شروع کی گئی ہے اور میڈیا کو بتایا گیا کہ نیب آفس پشاور طلب کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی کال اپ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھالیکن مولانا فضل الرحمن اور انکی جماعت کے اکابرین کے ردعمل پر نیب نے طلبی کی خبروں کو بے بنیاد قراردیدیا ۔دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت مولانا کی جماعت کا ردعمل انتہائی جارحانہ تھا ۔مولانا اور ان کے کارکنوں کے شدید ردعمل کو دیکھ کر فی الحال انھیں طلب کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کو بھی باربار نیب طلب کررہا ہے ۔پنجاب نیب کی طرح خیبر پختونخوا نیب بھی اب اپوزیشن جماعتوں کو ٹارگٹ کررہا ہے حالانکہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کو سات سال ہوچکے ہیں لہذا تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف شکایات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کی بدترین مثال مالم جبہ سیکنڈل ہے جس میں محکمہ جنگلات کی 257ایکڑ اراضی ایک نجی پارٹی کو دینے کا الزام ہے میڈیا میں شور مچنے اور نیب کے نوٹس لینے پر زمین واپس محکمہ جنگلات کو مل گئی لیکن یقینا اس کو اختیارات کے ناجائز استعما ل کا ایک مثالی کیس قراردیا گیا تھا علاوہ ازیں اس سکینڈل میں کافی بے قاعدگیاں ہوئیں لیکن نیب نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
قومی احتساب بیورو یکطرفہ احتساب کا تاثر ختم کرسکتا ہے اگر حکومتی رہنمائوںکے خلاف مقدمات پر بھی تیزی سے کاروائی کی جائے۔بلین ٹری سونامی میں تقریبا دوڈھائی سال بعد انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ حکومت خود اس معاملے میں ایکشن لے چکی ہے جس میں ریکوریاں بھی جاری ہیں اور محکمانہ کاروائیاں بھی ہورہی ہیں بی آرٹی کا معاملہ ابھی تک عدالت عظمی میں حکم امتناعی کے باعث روکا ہوا ہے۔