• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفیہ سلطانہ

مولا داد اپنے شہر کا سب سے زیادہ ہنرمند موچی تھا۔ وہ بہت اچھے اور مضبوط جوتے بناتا تھا۔ بہت جلد اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اس کے بنائے ہوئے جوتوں کی قیمت اگر چہ زیادہوتی تھی، لیکن وہ برسوں تک چلتے تھے۔ اسی شہر میں ایک سوداگر بھی رہتا تھا جو بہت دولت مند تھا، اس کی ایک ہی بیٹی تھی ،جسے اس نے شہزادیوں کی طرح پالا تھا۔اس کا نام زرنگار تھا۔

سوداگر جب کبھی سفر سے واپس آتا تو اپنی بیٹی کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا۔ اس مرتبہ اسے قریب کے ایک گاؤں میں جانا تھا اس نے سوچا کہ گاؤں میں کون سی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو اپنی بیٹی کے لئے لاؤں اور جو اسے پسند بھی آجائے۔ وہ سوچتا رہا آخر اسے خیال آیا کہ زرنگار کو نئے نئے جوتے پہننے کا شوق ہے۔ جوتوں کا خیال آتے ہی اسے مولا داد یاد آیا۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس سے انوکھا اور قیمتی جوتا بنوایا جائے۔ یہ سوچ کر وہ مولا داد کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ ’’مجھے اپنی بیٹی کے لئے ایک ایسا جوتا بنوانا ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھا ہو.‘‘ یہ سن کر موچی سوچ میں پڑ گیا پھر بولا ’’صاحب میں ہر قسم کے جوتے بنا چکا ہوں۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا بنا دوں گا۔‘‘ سوداگر سوچتا رہا۔ کچھ دیر بعد بولا ’’ابھی چند دن پہلے مَیں نے اپنی بیٹی کے لئے سرخ مخمل کا لباس بنوایا ہے ،جس پر چاندی کے تاروں کا کام ہے اگر مخمل کے جوتے پر چاندی کے تاروں کا کام بنا دو تو کیسا رہے؟‘‘

’’خوب! بہت خوب صاحب! اچھا رہے گا ،مگر یہ ایسا نہیں ہوگا کہ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو کیونکہ ایسے چار جوتے میں پہلے ہی بنا چکا ہوں۔ اگر آپ پورے جوتے چاندی کے بنوالیں اندر نرم مخمل ہوگی اور اس کے کناروں پر بھی مخمل اور اس پر سنہری کا کام تو ہر شخص دیکھتے کا دیکھتا رہ جائے گا۔‘‘ ’’اچھا! تمہارا خیال تو بہت اچھا ہے لیکن کام سنہری نہیں سفید بنانا!‘‘۔

سوداگر نے کہا کہ دس دن میں بنا دو کیونکہ مَیں سفر سے واپس آؤں گا تو اپنی بیٹی کو تحفہ دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے جناب! مگر محنت بہت ہے اس لئے قیمت بھی کچھ زیادہ ہی ہوگی‘‘۔

سوداگر نے کہا ’’اس کی کوئی فکر نہ کرو جتنے کا بھی ہو بس جوتا بہترین ہو۔‘‘۔

موچی نے چاندی خریدی اس کو جوتوں کی شکل میں ڈھال کر اس پر خوبصورت نقش و نگار بنائے، اس پر سرخ مخمل کا نفیس کام بنایا۔

دسویں دن جب سوداگر واپس آیا تو جوتا تیار تھا اور اسے بہت خوبصورتی سے چاندی کے بکس میںرکھا تھا۔ جوتا اتنا خوبصورت تھا کہ سوداگر خود بھی دیکھ کر حیران رہ گیا اور موچی کی ذہانت اور سلیقے کی داد دینے لگا، اس نے موچی کو منہ مانگی قیمت دی اور تحفہ لے کر گھر پہنچا۔ زرنگار باپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ سوداگر نے بیٹی کو تحفہ دیا۔ اس نے کھول کر دیکھا تو حیران رہ گئی اور بولی ’’ابّا جان اتنا حسین جوتا تو میں نے کہیں بھی نہیں دیکھا۔‘‘ زرنگار نے مخمل کا لباس پہنا اور اس کے ساتھ چاندی کا جوتا، وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ سوداگر کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ وہ بولا ’’آج تو ہماری زرنگار واقعی کسی ملک کی شہزادی لگ رہی ہے۔‘‘ زرنگار نے اگلے دن بھی وہی خوبصورت لباس پہنا۔ وہ اپنے محل نما گھر میں دیر تک ٹہلتی رہی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی آخر تھک کر اپنی خادمہ سے بولی کیا بات ہے آج اب تک دسترخوان کیوں نہیں لگا؟

خادمہ بولی ’’بس جی، لگا ہی رہی ہوں، اس بھوکے بابا کا حال سن رہی تھی تو وقت کا خیال نہ رہا، کھانا تو تیار ہے۔ اس نے دوسری خادمہ کو دستر خوان لگانے کو کہا۔

زرنگار نے پوچھا ’’بوڑھا فقیر کہاں ہے؟ بھوکا ہے؟ تم نے کچھ دے دیا ہوتا۔‘‘ ’’ کھانا تو اسے کھلا دیا ہے۔ اس کا مسئلہ کچھ اور ہے، وہ آپ سے مدد چاہتا ہے۔‘‘ زرنگار بولی ’’اچھا تو پھر ہم خود ہی اس سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ وہ باہر نکلی اور فقیر سے پوچھا ’’کیا چاہیے بابا؟‘‘

وہ بولا ’’مَیں فقیر نہیں ہوں، مگر محتاج ہوگیا ہوں اور میری بیٹی سخت بیمار ہے۔ اس کے پیروں میں ایک خطرناک مرض ہوگیا ہے۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ اس کا علاج چاندی سے ممکن ہے۔ اگر وہ مل نہ سکی تو اس کے پورے جسم میں زہر پھیلتا جائے گا اور پھر‘‘ فقیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔’’ مَیں غریب کہاں سے لاؤں! کیا کروں؟‘‘ یہ سن کر زرنگار دل ہی دل میں سوچنے لگی، پھر اس نے پاؤں سے جوتا اتارا۔ تھوڑی دیر اسے الٹ پلٹ کر دیکھا پھر اپنا حسین سا چاندی کا جوتا فقیر کے ہاتھ میں تھما دیا اور بولی ’’لو بابا! جاؤ اپنی بیٹی کا علاج کرا لو!‘‘۔

فقیر کی حیرت کی انتہا نہ رہی، اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ زرنگار اس کی مدد کر کے بہت خوش تھی ۔

جب سوداگر کو پتہ چلا تو اسے بیٹی کی سخاوت پر حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ اس نے ویسا ہی جوتا دوبارہ بنوا کر بیٹی کو دے دیا۔ اس طرح زرنگار کو اپنا تحفہ واپس مل گیا۔

تازہ ترین