موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی گرفتار ہوگیا اور لاہور ہائیکورٹ نے اُس کیس کی کوریج سے متعلق پیمرا کی جانب سے لگائی ہوئی پابندی کو کالعدم قرار دیدیا تو سوچا کیوں نہ آج اُس شخص کی بات کی جائے جس کا ریپ اجتماعی طور پر کیا گیا۔
جن خواتین کو جبری طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ زندگی بھر اِس اذیت کے چنگل سے نہیں نکل پاتیں۔ اگر جنسی زیادتی کا شکار خاتون انصاف کے حصول کے لئے نکل پڑے تو اُسے بار بار اِس کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ الفاظ کے نشتر سے گھائو لگانے والے یہ کہہ کر ہوس مٹاتے ہیں کہ اکیلی عورت گھر سے نکلی ہی کیوں؟
یہ سب سچ ہے مگر ہم سب نے ملکر جس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی وہ کوئی خاتون نہیں بلکہ مرد ہے۔ سانحہ موٹروے کے چند روز بعد ہی وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب اور صوبائی وزراء نے ملکر پریس کانفرنس میں بتایا کہ گجرپورہ میں خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانیوالے ملزموں کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور اُن میں سے ایک ملزم کا نام عابد ملہی جبکہ دوسرے کا نام وقار الحسن ہے۔ اُن دونوں کی تصاویر اور شناختی کارڈ پر دستیاب معلومات عام ہو گئیں۔ ملزموں کی گرفتاری پر 25لاکھ روپے انعام مقرر کردیا گیا۔ عابد ملہی سے متعلق بتایا گیا کہ وہ اِس سے پہلے بھی جنسی زیادتی کے ایک مقدمے میں گرفتار ہو چکا ہے۔
وقارالحسن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھی عادی مجرم ہے، اُس کا بھی کریمنل ریکارڈ ہے اور وہ محض 14دن پہلے ہی ایک مقدمے میں ضمانت پر رہا ہوا ہے۔ پہلے تو میڈیا پر اِن خدشات کا اظہار کیا جانے لگا کہ اِن دونوں ملزموں کو پہلے سے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے اور اب پولیس مقابلے میں پار کردیا جائے گا کیونکہ پولیس حکام اتنے بیوقوف اور احمق نہیں ہو سکتے کہ ملزموں کو گرفتار کرنے سے پہلے پریس کانفرنس کردیں اور اُن سے متعلق ساری معلومات لیک کردیں لیکن کہانی میں ایک نیا موڑ تب آیا جب اگلے روز ملزم وقار الحسن نے بذاتِ خود پیش ہو کر گرفتاری دیدی۔ وقارالحسن کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوا، متاثرہ خاتون کو اِس کی تصویر بھیجی گئی مگر معلوم ہوا کہ وہ اس واقعہ میں ملوث نہیں۔
ٹی وی چینلز پر پولیس ذرائع سے یہ خبریں چلنے لگیں کہ ملزم وقار الحسن اِس واردات میں تو ملوث نہیں لیکن عابد ملہی اُس کا دوست ہے، وہ دونوں ملکر وارداتیں کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ملزم وقارالحسن کے نام پر موجود سم کارڈ جو عابد ملہی کے زیر استعمال تھا، وقارالحسن نے بتایا کہ وہ سم اُس کے بہنوئی کے پاس تھی، اُسے گرفتار کر لیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا کہ ملزم وقار الحسن سے دورانِ تفتیش حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں سانحہ موٹروے کیس کے ایک ملزم شفقت کو گرفتار کر لیا گیا ہے، شفقت کا ڈی این اے ہوا جو میچ کر گیا، اُس کے بعد مرکزی ملزم عابد کی تلاش جاری رہی۔ آخر کار وہ بھی 12اکتوبر کو گرفتار ہوگیا۔ ملزم وقارالحسن کو 20دن تک تحویل میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا لیکن اِس دوران متاثرہ خاتون کی طرح وقارالحسن کا بھی ریپ کیا گیا۔
گرد بیٹھنے پر معلوم ہوا کہ وقارالحسن کسی قاعدے اور ضابطے کے اعتبار سے ملزم تو کیا مشتبہ ملزم بھی نہیں تھا۔ اُس کا کسی قسم کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں۔ اُس کا ملزم عابد ملہی یا شفقت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ دوستی یا تعلق تو درکنار، وہ اُن دونوں سے کبھی ملا ہی نہیں۔ اِس کی سم کا فسانہ بھی سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ اُس کے نام پر جو موبائل نمبرز ہیں، اُن میں سے کوئی اِس واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ جیو فینسنگ کے دوران اُس کا موبائل فون نمبر بھی آس پاس کسی علاقے میں استعمال ہو رہا تھا۔ جیو فینسنگ کے دوران اِس سم کارڈ کے ایکٹو ہونے کی وجہ سے وقارالحسن کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا جا سکتا تھا لیکن صوبے کے اعلیٰ ترین حکام نے آئو دیکھا نہ تائو، اُسے مرکزی ملزم عابد کا ساتھی قرار دیتے ہوئے گرفتاری پر 25لاکھ روپے کی انعامی رقم مقرر کردی۔
خود آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ملزم وقارالحسن کے اِس واقعہ میں ملوث ہونے کا 96,97فیصد یقین ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب کی موجودگی میں انکشاف کیا کہ ملزم وقارالحسن کریمنل ریکارڈ کا حامل ہے، اُس پر ڈکیتی کے دو مقدمات پہلے سے درج ہیں اور اُسے 14دن پہلے ہی عدالت سے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔
وقارالحسن کے مطابق وہ بی بی پاکدامن کے مزار پر حاضری کے لئے آیا ہوا تھا، اِس دوران ایک دکان پر لوگ خبریں سن رہے تھے، یہ دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا کہ ٹی وی پر اُس کی تصویر چل رہی ہے اور اُسے سانحہ موٹروے کا ملزم قرار دیا جا چکا ہے، چنانچہ اُس نے اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لئے پولیس کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
وقارالحسن اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے بعد پولیس کی حراست سے تو رہا ہو چکا ہے لیکن گھر سے باہر نکلنے سے قاصر ہے کیونکہ میڈیا ٹرائل کے نتیجے وہ جہاں بھی جائے عجیب و غریب نگاہیں یوں اُس کا تعاقب کرتی ہیں جیسے وہ سچ مچ جنسی درندہ ہو۔
وقارالحسن کی اپنی چار بیٹیاں ہیں، جو اس سے سوال کرتی ہیں کہ بابا آپ کو پولیس کیوں پکڑ کر لے گئی تھی اور وہ کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ اگر وقارالحسن کسی ایسے ملک کا شہر ی ہوتا جہاں قانون نام کی کوئی چیز ہوتی تو اُسے ملزم قرار دینے والے سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور اُسے ازالہ حیثیت عرفی کے کیس میں اِس قدر زرتلافی موصول ہوتا کہ اُس کے بچوں کی زندگی سنور جاتی لیکن یہ پاکستان ہے اور اِسے متاثرہ خاتون کی طرح اِس ذلت و رسوائی کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے جینا ہے۔