پی ڈی ایم نے عوامی تحریک شروع کردی ہے ۔ گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں بڑے عوامی اجتماعات منعقد کرکے اپوزیشن اتحاد نے بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب اگلا جلسہ کوئٹہ میں اتوار کو ہو گا۔ ان جلسوں سے قومی سیاست کا درجہ حرارت اب آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔ جلسے، جلوس، ریلیاں یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن پہلی مرتبہ جلسوں میں جو زبان اور لب و لہجہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ ہرگز نیک شگون نہیں ہے۔ وزیر اعظم خود بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ہیں اور انہوں نے بھی باقاعدہ آستینیں چڑھا کر جواب دیا ہے کہ اب اپوزیشن کو نئے عمران خان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو نقصان ہو گا وہ نہ جمہوری نظام کیلئے اچھا ہے اور نہ مجموعی طور پر ملک کیلئے۔ اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ اظہار رائے کا حق آئین دیتا ہے۔ اپوزیشن کا کردار جمہوری اور آئینی کردار ہے ۔ اسے حق تنقید حاصل ہے۔ حکومت آئین کے تحت ریاست کا زمام کار چلاتی ہے۔ آئین میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کردار اور دائرہ کار متعین کر دیے گئے ہیں۔ تمام قومی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہی اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں۔
مسائل تبھی جنم لیتے ہیں جب کوئی ادارہ یا فرد اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسروں کے آئینی اختیارات میں مداخلت کرتا ہے۔ اسی طرح قانونی اور آئینی حدود کے علاوہ اعلیٰ پارلیمانی، سیاسی، سماجی اور جمہوری اقدار بھی ہیں۔
اقدار کی اگرچہ کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہوتی مگر عملاً ان کی پاسداری کی جاتی ہے۔ معاشرے اپنی روایات سے زندہ رہتے ہیں اور پہچانے جاتے ہیں۔ زندہ معاشروں میں تو یہ روایات مزید پختہ ہوتی ہیں اور ان میں بتدریج بہتری آتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمیں جس صورتحال کا اس وقت سامنا ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ ہم اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف جا رہے ہیں۔ اختلاف رائے اب دشمنی میں تبدیل ہو گیا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تمام حدیں کراس کی جا رہی ہیں۔
گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم نے اچھا پاور شو کیا۔ اپنی عوامی تحریک کی بھرپور لانچنگ کی۔ رائے عامہ کو اجاگر اور منظم کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے ۔ یہ حق حکمران جماعت پی ٹی آئی بھی استعمال کرچکی ہے۔ کل کی حکومت آج کی اپوزیشن ہے۔ کل کی اپوزیشن آج حکومت میں ہے۔
یہ تبدیلی دراصل نظام فطرت کا حصہ ہے۔ بقول شاعر۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ۔ حکومت اور اپوزیشن اگر اس اصول پر یقین رکھیں تو شاید ان کا وہ رویہ نہ ہو جو اس وقت ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کا الزام تو ہر الیکشن میں لگتا ہے لیکن2008سے اب تک دو حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا جس سے ملک میں جمہوریت مستحکم ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی آئینی مدت یعنی پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہئے البتہ آئینی طریقے سے ان ہائوس تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ عوام مہنگائی سے عاجز ہیں ۔
گورننس کے ایشوز ہیں۔ حکومت ابھی ڈیلیور نہیں کر پا رہی ۔ معیشت نہیں سنبھل رہی۔ وزراء کی توانائیوں کا فوکس پرفارمنس کی بجائے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے پر ہے۔ ابھی تک وزیراعظم اور ان کی ٹیم اپوزیشن کے خول سے باہر نہیں نکلی۔ وہ حکومت کا کردار عملی طور پر ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ پارٹی چیئرمین سے آگے سوچنے کو تیار نہیں ہیں ۔ سیاسی ہم آہنگی کا ماحول برقرار رکھنے کی پہلی ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے۔
یہ پارلیمانی اور جمہوری روایت ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن بالخصوص اپوزیشن لیڈر سے ورکنگ ریلیشن شپ رکھتے ہیں۔ اہم قومی امور پر فیصلہ سے پہلے ان سے مشاورت کرتے ہیں لیکن دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئیں تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مصافحہ تک کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان سخت مزاج رکھے ہیں۔ بے لچک رویہ رکھتے ہیں۔ ضدی طبیعت رکھتے ہیں اور دھن کے پکے ہیں خواہ کتنا ہی نقصان ہو جائے۔ وہ جب ٹھان لیتے ہیں تو نتائج کی پروا نہیں کرتے۔ ان کے ان ذاتی اوصاف کا انہیں فائدہ بھی ہوا ہے۔ کرکٹ میں کامیابی ملی۔ شوکت خانم ہسپتال بنایا۔
سیاسی جماعت بنا کر وزیراعظم بن گئے لیکن ابھی تک وہ سیاسی مزاج نہیں اختیار کر سکے۔ سیاست میں بے لچک رویہ نہیں چل سکتا۔ سیاسی مخالفین کو آپ انتقام لے کر ختم نہیں کر سکتے۔ آپ سیاسی مخالفین کو احترام دے کر ان کی مخالفت کی حدت کم کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ مذاکرات کے راستے بند کر دیے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں جو ریمارکس دیے ہیں وہ نا مناسب ہیں۔ عسکری عہدیداروں کے بارے میں عوامی اجتماعات میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئے۔ نواز شریف اتنے سادہ نہیں ہیں کہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے یہ ریمارکس دے کر ایک پر خطر اور مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان کیلئے ان کے خاندان اور جماعت کیلئے مشکلات میں یقیناً اضافہ ہو جائے گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ نواز شریف نے یہ ریمارکس کیوں دیے اس کی بظاہر دو ہی و جوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مایوسی کی آخری حد پر جا چکے ہیں اور فرسٹیشن کا شکار ہو کر انہوں نے یہ آخری کارڈ دبائو کیلئے استعمال کیا یا دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے یہ دائو کسی قوت کے اشارے پر کھیلا ہے۔
بہر حال اس سے ایک تلخی کی فضا نے جنم لیا ہے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا پی ڈی ایم بطور اتحاد نواز شریف کے بیانیہ کو اونر شپ دیتی ہے یا نہیں۔ بطور جماعت مسلم لیگ ن کیلئے بھی یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے۔ اب تسلیم کرنا چاہئے کہ شہباز شریف نے قبل از گرفتاری کی ضمانت کی درخواست اس نازک صورتحال سے بچنے کیلئے واپس لی تھی۔
نواز شریف کو بہرحال تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ہمارے ملک کے مفاد میں یہی ہے کہ قومی ادارے متنازعہ نہ بنیں۔ ان کی ساکھ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر گلی کوچوں، سوشل میڈیا اور عوامی اجتماعات میں یہ موضوع زیر بحث آئے گا تو اس کے سنگین مضمرات ہیں۔ جو نقصان ہو چکا ہے اس کا تدارک اور ازالہ کیا جائے۔ مزید نقصان ہونے سے روکا جائے۔ سیاسی بصیرت اور حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے مداخلت کی جائے ۔ اپوزیشن کا پلان یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ میں بھی ہنگامہ آرائی کی جائے۔ سڑکوں پر وہ پہلے ہی نکل چکے ہیں۔ اس سے معیشت کو بھی نقصان ہو گا۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کرونا وائرس دوبارہ پھیل رہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت پہل کرے۔ اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرے اور یہ کام وزیراعظم خود کریں۔ وزیراعظم کے آئینی کردار کا تقاضا ہے کہ وہ وسیع القلبی اور نرم روی کا رویہ اپنائیں۔ اپوزیشن کو سیاسی سپیس دیں۔ پروڈکشن آرڈر سپیکر قومی اسمبلی کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم کیلئے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ اب کسی کو پروڈکشن آرڈر نہیں ملے گا۔ اس سے انتقام کی بو آتی ہے۔ کرپشن کے مقدمات عدالتوں میں چلنے دیں۔ استغاثہ کوئی رعایت نہ کرے لیکن قانون سازی اپوزیشن کی مشاورت سے کی جائے۔ نیب ایکٹ میں کم ازکم وہ ترامیم تو ضرور کی جائیں جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے کو بلا کر ٹارگٹ بنا کر کیسز بنانے کی ہدایت نہ دی جائے۔
احتساب بلا امتیاز کیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت اپنی پر فارمنس بہتر کرے۔ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج تو مہنگائی ہے جس نے عمران خان کو غیر مقبول کیا ہے۔ عوام اپوزیشن کی محبت میں نہیں مہنگائی کی وجہ سے سڑکوں پر آرہی ہے۔ یہ تو وزیر اعظم کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بہر حال اگر حکومت اور اپوزیشن میں یہ محاذ آرائی اور کشیدگی بڑھتی رہی تو پھر سسٹم کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سب کی بقا اسی میں ہے کہ انا اور ذاتی مفاد کے خول سے نکلیں اور دانشمندی، تحمل اور روا داری کا راستہ اپنائیں ورنہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔