الحمدللہ! 22،23؍اکتوبر2020ء بروز جمعرات و جمعہ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چناب نگر میں دو روزہ 39 ؍ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس اپنی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہورہی ہے، جس سے ہر طبقۂ فکر کے زعماء خطاب کریں گے۔ ملک بھر سے شمع رسالت کے پروانے ، ختم نبوت کے دیوانے قافلوں کی شکل میں اور انفرادی طور پر پہنچ کر اس عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کرکے خاتم الانبیاء، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی جاں نثاری کا اقرار کریں گے اور یوں وہ کل میدانِ محشر میں فخر موجودات، وجۂ تخلیق کائنات ، شفیع المذنبین ﷺ کی شفاعت کے حقدار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اتحاد، اپنے جذبے اور ولولے سے یہ بھی اعتراف کریں گے کہ وہ ہر حال میں ناموس رسالت اور ناموس صحابہ ؓ کا تحفظ کریں گے۔
کسی کو حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی آپﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے دیں گے اور نہ ہی آپ کی مقدس جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و حرمت کو پامال کرنے کی اجازت دیں گے۔ ہم اس مقدس مشن کے لیے اپنی جان نچھاور کردیں گے، مگر ان عظیم ہستیوں کی عزت و حرمت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
ہماری تاریخ یہی ہے کہ ہم نے آگ میں کودنا گوارا کیا ، اپنا ایک ایک عضو کٹوانا برداشت کیا، سولی پر چڑھ گئے، موت کو گلے لگایا ،مگر آپ ﷺ کی ختم نبوت ، آپ کی عزت و عظمت پر کوئی حرف آئے، اسے برداشت نہیں کیا۔
آج جب کہ ہر جگہ انتشار ہے، قوم اختلافات کا شکار ہے، فرقہ بندیوں کے زہر نے فضا کو مسموم کر رکھا ہے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے ، ان حالات میں یقیناً یہ کانفرنس اتحاد اُمت کا مظہر ہوگی ،ایک دوسرے کو قریب لانے میں معاون ہوگی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید و رسالت اور عقیدۂ آخرت کی طرح ختم نبوت کے عقیدےکا تحفظ بھی ہر مسلمان کا ایمانی فریضہ ہے، اس عقیدے کی حفاظت کسی ایک طبقے یا فرد کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر کلمہ گو مسلمان اس عقیدے کی حفاظت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر ہر طبقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور تمام مسلمان بغیر کسی تفریق کے اس کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں۔یہ کانفرنس جمعرات کے روز ظہر کی نماز کے بعد شروع اور جمعہ کے دن عصر کی نماز پر اختتام پذیر ہوگی۔
اس دوران کانفرنس کی مختلف نشستیں منعقد ہوں گی جن کی صدارت امیر مرکزیہ مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ، نائب امیر پیر طریقت حافظ ناصر الدین خاکوانی،اور نائب امیر ولی ابن ولی مولانا عزیز احمد اور دیگر مشائخ کریں گے ۔ اس کانفرنس میں علمائے کرام اور مشائخ عظام اپنے قیمتی خطبات اور نصائح سے نوازیں گے اور ختم نبوت کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ قادیانیت کی ارتدادی سرگرمیوں سے بھی آگاہ کریں گے۔ساتھ ہی ساتھ قادیانیوں کو اخلاص اور دل سوزی سے اسلام کی دعوت دیں گے۔
ہندوستان میں قادیانیوں کا مرکز قادیان تھا، انہوں نے اپنا مرکز ربوہ بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں نے اپنا مرکز ’’ربوہ‘‘ کو بنایا اور وہاں دسمبر میں اپنا سالانہ جلسہ کرنے لگے تو مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی ان کے مقابلے میں کانفرنس منعقد کرنا شروع کی جو ۱۹۸۱ء تک ہر سال چنیوٹ میں منعقد ہوتی رہی، کیوں کہ اس وقت ربوہ پر قادیانیوں کا قبضہ تھا، انہوں نے وہاں با قاعدہ اپنی اسٹیٹ قائم کی ہوئی تھی، ان کے علاوہ دوسروں کا داخلہ ممنوع تھا اور ربوہ میں کانفرنس منعقد کرنا مشکل تھا۔
یہی وجہ ہے کہ 1974ء کی تحریک میں دیگر مطالبوں کے ساتھ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ ۶،۷؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو چناب نگر میں پہلی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی اور ۲۳، ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو چناب نگر میں باقاعدہ پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی ،جس کا تسلسل آج تک جاری ہے، لیکن ساتھ ہی یہ فیصلہ ہوا کہ چنیوٹ میں دسمبر میں ہونے والی کانفرنس کو بھی باقی رکھا جائے،اس طرح اکتوبر میں چناب نگر میں کانفرنس ہوئی اور دسمبر میں چنیوٹ میں۔ اس کانفرنس کا انعقاد اس طرح ہوتا کہ قادیانیوں کے جلسے کے آغاز کے ایک دن بعد اس کانفرنس کا آغاز ہوتا اور اختتام بھی ایک دن بعد ہوتا۔
مرزائیوں کا سالانہ جلسہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۸۳ء تک ہر سال ربوہ میں ہوتا رہا، مگر ۱۹۸۴ء میں جب ان کے خلاف ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری ہوا، جس کے ذریعے قادیانیوں کو مسلمان کہلانے،اذان دینے، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور اسلامی شعائر و اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی تبلیغی و ارتدادی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ان کے سالانہ جلسے پر بھی پابندی لگوائی اور اس طرح ہر سال ہونے والے ان کے جلسے کا سلسلہ پاکستان میں ختم ہوگیا اورعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی چنیوٹ کی سالانہ کانفرنس ختم کردی، مگر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی چناب نگر کی سالانہ کانفرنس الحمدللہ! پہلے دن کی طرح آج بھی اپنی شاندار روایات کے مطابق منعقد ہوتی ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ دین کی اساس اور بنیاد ہے، کیوں کہ عقیدۂ ختم نبوت ہے تو قرآن محفوظ ہے، عقیدۂ ختم نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں، اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا، کیوں کہ بعد میں آنے والے ہر نبی کو دین میں تبدیلی اور تنسیخ کا حق ہوگا۔اس لیے اس عقیدے پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں اُمت کی وحدت کا راز مضمر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے اس عقیدے میں نقب لگانے کی کوشش کی یا اس مسئلے سے اختلاف کرنے کی کوشش کی،اسے اُمت مسلمہ نے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا، اس لیے ختم نبوت کا تحفظ یا بالفاظِ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین کا ہی ایک حصہ ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہے اور امت نے ہر دور میں اپنا یہ فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا ہے،اور اس فریضے کے ادائیگی میں کسی کوتاہی اور غفلت کی مرتکب نہیں ہوئی۔ پوری تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی جب کبھی یہ گستاخی کی اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی، امت نے نہ صرف یہ کہ اسے قبول نہیں کیا، بلکہ اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیا جب تک کہ اسے کاٹ کر جسدِ ملت سے علیحدہ نہیں کردیا۔
مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ:’’ اگر ہم ختمِ نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے‘‘۔
مولانا خواجہ خان محمدؒ فرمایا کرتے تھے:’’نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ، تبلیغ اور جہاد جیسے فرائض کا تعلق حضور اکرم ﷺ کے اعمال سے ہے، اور ختم نبوت کا تعلق حضور ﷺ کی ذات مبارک سے ہے ، ختم نبوت کی پاسبانی براہِ راست ذات اقدس ﷺ کی خدمت کے مترادف ہے‘‘۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ فرمایا کرتے تھے :’’ختم نبوت کا کام کرنے والوں کی حیثیت ذاتی باڈی گارڈ کی ہے ، ممکن ہے دوسرے کام کرنے والے حضرات کا درجہ و مقام بلند ہو، لیکن بادشاہ کے سب سے زیادہ قریب اس کے ذاتی محافظ ہوتے ہیں ، اور بادشاہ کو سب سے زیادہ اعتماد بھی انہی ذاتی محافظوں پر ہوتا ہے ، اس لیے جو لوگ ختم نبوت کا کام کرتے ہیں، وہ آنحضرتﷺ کے سب سے زیادہ قریب ہیں اور آپ ﷺ کو سب سے زیادہ ان پر اعتماد ہے‘‘۔
حضرت امام العصرؒ نے بھی اس موضوع پر گراں قدر کتابیں تصنیف کیں اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، مولانا مرتضی حسن چاند پوریؒ، مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا محمد منظور نعمانیؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جدید طبقے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے مولانا ظفر علی خان اور علامہ اقبال کو تیار و آمادہ کیا۔
علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اپنے شاگردوں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِّ قادیانیت کے لیے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے:’’جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے دامنِ شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہو وہ قادیانیوں سے ناموسِ رسالت کو بچائے!‘علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لیے خطیب الامت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین کے ایک عظیم الشان جلسے میں آپ ؒ کے ہاتھ پر پانچ سو جید علمائے کرام اور مشائخ عظام کے ساتھ بیعت کی۔
مجلس احرار نے ۲۰-۲۱-۲۲ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں تبلیغ کانفرنس کا اعلان کردیا جس سے قادیان میں صف ماتم بچھ گئی۔بہرحال احرار کے سرفروشوں نے قادیانیت کا پوسٹ مارٹم کیا اور پورے ملک میں اپنے جوش خطابت سے مرزائیت کے لیے نفرت پیدا کردی اور ان سرفروشوں نے اپنے شعبہ خطابت سے قادیانی نبوت کے خرمن کو پھونک ڈالا۔
قادیانی فتنہ ہندوستان کے قصبہ قادیان میں پیدا ہوا ،وہاں اس نے پر پرزے نکالے اور انگریز کے سائے میں یہ پروان چڑھتا رہا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مرزا غلام احمد کا بیٹا مرزا محمود قادیان سے فرار ہوا اور پاکستان آکر اپنے دجل و تلبیس کا نیا دار الکفر قائم کیا۔ پنجاب کے پہلے انگریز گورنر موڈی کے حکم پر چنیوٹ کے قریب قادیانیوں کو لبِ دریا ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر الاٹ کی گئی، وہاں ربوہ کے نام سے اپنا مرکز قائم کر کے ایک نئے قادیان کی بنیاد رکھی۔
اِدھر احرار اسلام کا قافلہ تقسیم ملک کی وجہ سے لٹ چکا تھا، تنظیم اور تنظیمی وسائل کا فقدان تھا، سب سے بڑھ کر یہ کہ احرار اسلام کے زعما حکومت وقت کے دربار میں معتوب تھے،اس لیے قادیانی اس ملک میں دندناتے پھرتے تھے۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، قادیانیوں کے عزائم سے باخبر تھے ، اس لیے ۱۹۴۹ء میں ملتان کی مسجد سراجاں میں اپنے رفقاء کے ساتھ ایک مشاورت کی اور ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی بنیاد رکھی۔
اسی مجلس تحفظ ختم نبوت نے تمام مکتبہ ہائے فکر کے رہنماؤں کو وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور قادیانیوں کے خلاف ایک ایک کے دروازے پر دستک دی، اور یوں تمام فرقے تحفظ ختم نبوت کے اسٹیج پر جمع ہوگئے اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت وجود میں آئی، اس کی رہنمائی میں 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی، مگر اس تحریک کو بڑی شدت کے ساتھ کچل دیا گیا ،مگر اس تحریک نے قادیانیوں کے بارے میں شعور پیدا کردیا اور ان کے خلاف فضا پیداکردی،بالآخر ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں 7ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو آئین پاکستان کے تحت غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
آئیے! اس کانفرنس کے موقع پر تجدیدِ عہد کریں کہ ہم ہر حال میں عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کریں گے ، سرکارِ دو عالم فخر موجودات حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی عزت و ناموس کے لیے ہر قربانی دیں گے اور زندگی کے اخری سانس تک آنحضرت ﷺ کے باغیوں کا تعاقب جاری رکھیں گے۔