اسلام آباد (انصار عباسی) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے منگل کو انکشاف کیا ہے کہ انہیں اپنی حکومت قائم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بات دہراتے ہوئے اداروں کے مابین مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان کا مستقبل بہتر ہو سکے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نواز شریف بھی تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول فوج کی موجودہ قیادت سے با معنی مذاکرات کیلئے تیار ہوں گے۔
شاہد عباسی نے کہا کہ نواز شریف کی حالیہ تقاریر کسی کی تضحیک کیلئے نہیں بلکہ مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کیلئے تھیں تاکہ پاکستان کا مستقبل بہتر ہو اور یہ عوام کے مفاد میں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ اداروں کے مابین مذاکرات ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا نواز شریف ایسی کسی رائے کی حمایت کریں گے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی مسئلہ، وہ نظام میں بنیادی خرابیوں کو سامنے لا کر ان کا حل چاہتے ہیں اور یہ مسئلہ اسی صورت حل ہوگا جب بامعنی مذاکراتی عمل شروع ہو۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو متحرک کرنے کی مہم کا عمومی مقصد بامعنی مذاکراتی عمل کی راہ ہموار کرنا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ نواز شریف اور نہ ہی پی ڈی ایم نے اداروں کیخلاف کوئی بات کی ہے؛ اس کی بجائے صرف ان غلطیوں کا حوالہ دیا گیا جو ایسے افراد سے جڑی ہیں جو اہم ترین عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ان سے رابطہ کرکے حکومت تشکیل دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ عباسی نے کہا کہ انہوں نے پیغام لانے والوں سے کہا کہ میری بجائے جا کر نواز شریف سے بات کریں۔
انہوں نے پیغام لانے والوں کے نام بتانے سے گریز کیا لیکن کہا کہ نواز شریف اور نون لیگ ایسے کسی بھی مذاکرات کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی ایسی کوئی حکومت تشکیل دیں گے جو ’’ہائبرڈ‘‘ حکومت بنانے کیلئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت موجودہ طرز سے نہیں چل سکتا اور اسی لیے آئینی حکومت کیلئے مذاکرات شروع ہونا چاہئیں تاکہ ماضی کی غلطیاں بار بار دہرانے سے بچ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن، عدلیہ، میڈیا اور نیب کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنانا چاہئے اور اس فورم پر ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے ایسا میکنزم تشکیل دیا جا سکے جس میں یہ غلطیاں نہ ہوں۔نواز شریف کی حالیہ تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے قائد نے اگرچہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لیا لیکن اس کا مقصد ان کی توہین نہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی کرنا تھا کہ کیا غلطی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہئے کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں مل بیٹھیں نہ کہ ذاتی مسائل اور جھگڑوں پر بات کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ معاملات مذاکرات کی میز پر حل ہوتے ہیں اور یہ کام دو سال پہلے ہی کر لینا چاہئے تھا، اور اب یہ کام کر لینا چاہئے اس سے قبل کہ دیر ہو جائے۔ نون لیگ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کے درمیان رابطے ہمیشہ سے رہے ہیں لیکن حالیہ واقعات میں جب مشکوک انداز سے ان روابط کو سامنے لایا گیا، اس طرح کے روابط کیلئے اعتماد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
کبھی کبھار یہ رابطے وسیع تر قومی مفاد میں کیے جاتے ہیں لیکن حال ہی میں جس طرح ان رابطوں کو سامنے لا کر پیش کیا گیا اس کے بعد سے نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کے روابط بند کر دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے اور ایسے رابطے دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی بحالی سے دوبارہ شروع نہیں ہوں گے۔
مذاکراتی عمل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر تمام فریقین قومی مفاد کا سوچیں تو فوری طور پر کامیابی مل سکتی ہے تاکہ عوام کے مفاد میں مسائل پر توجہ دی جا سکے۔