دنیا کے تمام مذاہب اپنے ماننے والوں کوایک دوسرے کا احترام سکھاتے ہیں،ہر مذہب انسان کو خدا سے جوڑنے کیلئے خدا کے بندوں کی خدمت کا درس دیتا ہے، خدا تک رسائی کیلئے مختلف طریقے اختیار کئےجاسکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک منزل تک پہنچنے کیلئے دوسرے راستے اختیار کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تاہم فرانس کے حالیہ غیرذمہ دارانہ اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ کچھ ایسے لوگ دنیا کے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو مذہب کے نام پر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ، در حقیقت ایسے لوگ معاشرے میں فساد پھیلاتے ہیں جس کے ردعمل میں دوسری طرف کے شدت پسند عناصرکو بھی دوطرفہ نفرتیں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے، چند ناسمجھ لوگ دوسرے مذاہب کو ٹارگٹ کرنا اپنے مذہب کی خدمت سمجھتے ہیں۔ نائن الیون کے افسوسناک سانحہ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن یہ ان کا انفرادی فعل سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے تھا، نائن الیون کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتھی کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ تاہم یہ ناانصافی صرف امریکہ اور مغربی ممالک تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے چند شرپسند عناصر سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کیلئے زمین تنگ کرنے میں مصروف ہیں، بھارت میں بی جے پی سرکارکی اقلیتی مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر حکومتی پالیسیاں سیکولرازم پر سوالیہ نشان ہیں، اسی طرح امن کا درس دینے والے گوتم بدھ کے ماننے والے چند شدت پسند عناصر میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں، عراق اور دیگر ممالک میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک رہی ہے،نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرکے نمازیوں کو شہید کیا جاتا ہے، ہمارے اپنے وطن پاکستان میں بھی چند شدت پسند عناصر موجود ہیں جو کہ امن پسند ہندو برادری کے مذہبی مقامات پر حملہ آورہونا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں،گزشتہ دنوں بدین اور ننگرپارکر میں ہندو مندروں پرحملے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔یہ امربھی قابل افسوس ہےکہ اگر کوئی مسلمان دیوالی یا کرسمس پر مبارکباد دے دیتا ہے تو اس کے خلاف بھی نفرت انگیز پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو خوشی کے موقع پر مبارکباد دینا اور اس کی خوشیوںاور غم میں شریک ہونا ایک اچھے اور اعلیٰ ظرف انسان کی خصوصیت ہے۔ایسے اقدامات سے ایک انسان دوسروںکے مذہبی عقائد کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے انسان دوستی کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیاتو اس کا نتیجہ معاشرے میں بگاڑ کی صورت میں نکلااور ملکی اور عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بنا۔ قوم کے لیڈر کے پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ جب چند شدت پسند عناصر معاشرے میں فساد برپا کر کے معاملات کو الجھاتے ہیں تو لیڈر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملے کو سلجھاتا ہے، وہ کسی ایک طبقے کو خوش کرنے کیلئے دوسروں کی دل آزاری نہیں کرتا، وہ کوشش کرتا ہے کہ اکثریت، اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکرسب کو ایک ساتھ لے کر چلے ۔ اس کی بہترین مثال ہمارے سامنے نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی صورت میں موجود ہے جب وہاں ایک شدت پسند نے مسجد پر حملہ کرنے کی جسارت کی تو انہوں نے فوری طور پراپنا مثبت کردار ادا کیا، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان تمام مذہب کا احترام ہے اور کسی بھی مذہب کی توہین کسی صورت قابلِ قبول نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کورونا وائرس جہاں ایک طرف دنیا کیلئے ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت میں موجود ہے وہیں دوسری طرف اس عالمی وباء نے دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے ، ہم سب کا ایک ہی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ کس طرح انسانی زندگیوں کی بقاء کی خاطر مل جل کر کام کریں ،ایک دوسرے کا احترام کریں اور بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں عید میلاد النبی کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ کے آخری نبی ﷺ اور رحمت العالمین کی تحمل، برداشت اور رواداری پر مبنی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کریں، آج کے دن ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم حق اور سچ کی آواز بنیں گے،ہم پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کیلئے تمام لوگوں کو مذہبی آزادی فراہم کریں گے، ہم دنیا کے سامنے ایسا رول ماڈل ملک پیش کریں گے جہاں سب شہریوں کے مذہبی عقائد کا احترام کیاجاتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مغربی ممالک کی گستاخانہ جسارت پراپنا احتجاج ضرورریکارڈ کروانا چاہئے لیکن ہمیں شدت پسندی سے دور رہتے ہوئے اپنے عمل اور قول و فعل سے ثابت کرنا چاہئے کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں ، دنیا کے ہر مذہب کا احترام یقینی بنانے کیلئے عالمی سطح پر تمام ممالک کے امن پسند حلقوں کو مشترکہ کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب میں آزادی اظہار رائے کی آڑ میںتوہین مذہب پر احتجاج ریکارڈ کروانا اور جواب طلبی کرنا ہم سب پر لازم ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)