انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں
اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
بام و در و دیوار بڑی دیر سے چپ ہیں
(احمد فراز)
پاناما لیکس کا شور و غوغا اپنی جگہ۔ وزیر اعظم نے لندن میں اخباری نمائندوں سے سوال کیا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہوا کیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے درست فرمایا۔ یہاں 80فیصد عوام کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آف شور کمپنی کیا ہوتی ہیں میں نے سمجھایا کہ جس کمپنی کے خفیہ بنانے سے شور مچ جائے اسے آف شور کمپنی کہتے ہیں۔ اس میں بے حساب دولت ہوتی ہے اور یہ وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو یا تو سیاستدان ہوں یا پھر ان پر اللہ کا خاص کرم ہو۔ کمپنی کیا بنی کہ عوام میں اور مختلف چینلز پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں، کسی اخبار نے لکھا کہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کو وزارت عظمٰی کا تاج پہنایا جارہا ہے تو کسی نے مریم نواز کا نام لیا اور پھر کہا کہ نہیں ان کا نام بھی آف شور کمپنی میں ہے لہٰذا وہ نااہل ہو گئی ہیں پھر قرعہ حمزہ شہباز پر کھلا اور ابھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ لوگ شہباز شریف کا نام بھی لے رہے ہیں۔ میں آپ کو یقین سے بتادوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ میاں صاحب قائم علی شاہ کی طرح قائم و دائم رہیں گے، اور اپنے بیرون ملک دورے کرتے رہیں گے۔ ان کے علاج کیلئے برطانیہ جانے پر اتنی چہ میگوئیاں ہوئیں کہ آخر میاں صاحب کو اپنی واپسی کی تاریخ 18؍اپریل کا اعلان کرنا پڑا۔ حالانکہ آج کل لندن میں موسم بہت عمدہ ہے اور دل کے مریضوں کیلئے تو اور زیادہ مفید ہے۔ خاص طور پر جناب آصف علی زرداری اور عمران خان کی موجودگی حالات کو مزید پرکشش اور موسم کو مزید سہانا بنا دیتی ہے۔ سنا ہے کہ چوہدری نثار صاحب اور عمران خان ایک ہی طیارے میں لندن گئے اور مصافحہ بھی کیا۔ اچھی بات ہے۔ طیارے میں لڑنا منع ہے جو لوگ خوش فہمی میں ہیں آج میں ان کی خوش فہمی بھی دور کردوں۔ پاکستان میں حکومتیں بدلنے کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں۔ کبھی بھی حکومت کسی تحریک سے نہیں بدلی۔ تحریک صرف سازگار ماحول اور حالات پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کہیں اور سے آتی ہے۔ 1958ء سے شروع کرتے ہیںا سکندر مرزا کی حکومت کو ایوب خان نے ختم کیا۔ ایوب خان کی حکومت کو یحییٰ خان کے مارشل لا نے ختم کیا۔ یحییٰ خان سے اقتدار جنرل گل حسن کی ٹیم نے لیکر ذوالفقار علی بھٹو کو دیا اور انہیں پاکستان کا پہلا سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار جنرل ضیاء الحق نے چھینا، ضیاء الحق کا طیارہ بھی مبینہ طور پر انہوں نے ہی گرایا اور صدر غلام اسحاق خان نے مارشل لا نہیں لگانے دیا اور 1988ء کے الیکشن کروا کر بے نظیر صاحبہ کو حکومت بنانے کی دعوت دی جو انہوں نے غیبی ہاتھوں کی مدد سے بنالی۔ اس کے بعد 90ء کی دہائی میں چار مرتبہ حکومتیں کرپشن چارجز پر ختم کی گئیں کیونکہ اس وقت آئین میں دفعہ 258(B) موجود ہوتی تھی اور صدر کو اشارہ مل جاتا تھا کہ دھڑم تختہ کردو۔ ایک دفعہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب عدالت سے حکم لے کر دوبارہ برسراقتدار آئے تو جنرل وحید کاکڑ نے غلام اسحاق خان اور نواز شریف کو مشترکہ استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا اور امریکہ سے بلائے ہوئے معین صاحب عبوری وزیر اعظم بن گئے۔ 99ء میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت بدلی۔
2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے استعفیٰ میں غیبی ہاتھ کار فرما تھا۔ گویا کہ اوپر دئیے ہوئے مختصر تجزئیے سے یہ ثابت ہوا کہ حکومتیں تحریک چلانے سے نہیں جاتیں بلکہ بقول مولانا کوثر نیازی ’’لائن کٹ جاتی ہے‘‘۔ ابھی بھی تمام قیاس آرائیاں فضول ہیں، کوئی حکومت جانے والی نہیں ہے۔ جتنے مرضی دھرنے دے لیں۔ جب تک لائن نہیں کٹے گی۔ یہی حکومت رہے گی اس سے پہلے آصف زرداری صاحب جب صدر مملکت تھے تو اس وقت بھی ایسی ہی افواہیں اڑتی تھیں وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہوکر ڈاکٹر عاصم کے ہمراہ دبئی گئے تو لوگوں نے کہا کہ دوبارہ نہیں آئیں گے مگر وہ پانچ سال مکمل کرکے گارڈ آف آنر لے کر ایوان صدر سے گئے اور دنیا کو حیران کردیا۔ اب بھی اگر لائن نہ کٹی تو میاں صاحب چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم منتخب ہوں گے اور دنیا دیکھتی ہی رہ جائے گی۔ آخر میں مجروح سلطان پوری کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ ؎
آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پر منزل، یہ اجالا، یہ سکوں
خواب کو دیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ