وزیراعظم عمران خان نے ملک میں اشیائے ضروریہ بالخصوص جس کا براہ راست تعلق غریب طبقات کی بنیادی ضروریات سے ہے کی قلت اور مہنگی ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے اس احساس اور تکلیف کا بھی اظہار کیا ہے کہ مہنگائی کے باعث دو سال سے ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ عام لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہم ایکشن لیں گے اور دنوں میں مہنگائی نیچے آنی شروع ہوجائیگی۔
قوم ساتھ دے ملک میں گرانی نہیں آنے دوں گا۔ وزیراعظم کے یہ فرمودات دو سال سے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی شاید وقتی طور پر تو ڈھارس بن جائیں اور دعا ہے کہ وہ اپنے اس پرعزم لہجے کی استقامت پر پورے اتریں لیکن بہر حال عوام کے ذہنوں میں وزیراعظم کے اس خوش کن اعلان سے یہ سوال بھی اٹھتے ہیں کہ دو سال سے وزیراعظم بڑے بڑے اعلانات اور اقدامات کر کے خارجی سطح پر بھی داد وستائش حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی پذیرائی بھی ہورہی ہے اور انھیں ایک’’ ویژنری شخصیت ‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔
ان کے بارے میں ان کے وزرا، رفقا اور حامی انھیں دوررس نتائج کے حامل اقدامات کرنے والے راہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن ان کے ملک کا جو بنیادی مسئلہ ہے یعنی پسے ہوئے عوام کی روزی روٹی کے حصول کی مشکلات بقول ان کے وہ دوسال سے اس قدر پریشان ہیں کہ ان کی نیندیں اڑ گئی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترم وزیراعظم اس صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے اور انھیں عوام کی مشکلات سے آگہی ہی نہیں بلکہ مہنگائی کے سبب ان کے مصائب کا بھی خوب علم تھا لیکن حیرت ہے کہ دو سال سے یہ بنیادی نوعیت کا انتہائی سنگین مسئلہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا اب اگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ آنے والے چند دنوں میں صورتحال میں بہتری آجائیگی اور لوگ مہنگائی کے خلاف حکومت کے سخت اقدامات دیکھیں گے تو لوگ یہ جاننے میں ضرور تجسس رکھتے ہونگے کہ حکومتی اقدامات کے یہ چند دن دو سال کی ابتدا میں کیوں نہیں آئے ۔ امرواقعہ ہے کہ آج بھی ایک ایسے حالات میں جب اپوزیشن یکجا ہوکربڑے بڑے جلسے کر رہی ہے حکومت کی اصل پوزیشن مہنگائی ہی ہے۔
یہ مہنگائی ہی ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے موقعہ پر لوگ اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔ خود حکومتی وزیرکابینہ کے اجلاسوں میں وزیراعظم کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے حلقوں میں جن لوگوں کو ووٹ دینے کیلئے جو وعدے کیے تھے۔ وہ سب ایک خواب نکلے اور اب وہ مہنگائی کی صورتحال کے باعث اپنے حلقے کے لوگوں کا سامنا بھی نہیں کرسکتے۔ ٹی۔ وی ٹاک شوز میں بھی وزرا اور اراکین اسمبلی اس ایشو پر اپنی حکومت اور وزیراعظم کا دفاع نہیں کرپاتے اور اگرچہ یہ حقیقت ابھی دھندلی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ بھی شامل ہوتےہیں لیکن اگر مہنگائی کے عفریت پرقابو نہ پایا گیا تو شاید یہ حقیقت واضح بھی ہوسکتی ہے۔
ویسے بھی متقاضی صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن کے جلسوں میں بھی اب مرکزی قائدین دیگر امور کے علاوہ مہنگائی اور غریب عوام کی حالت زار کو ہی اپنا موضوع بنا رہے ہیں اور ملک کے لاکھوں متاثرین ان کی اس بات کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر توجہ کے ساتھ سن بھی رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مہنگائی کے باعث خود حکومتی حلقوں میں پیدا ہونے والی اضطرابی حالت کے پیش نظر وزیراعظم اپنی معاشی ٹیم میں ایک بار پھر کچھ تبدیلیاں اور غیر روایتی اقدامات کرنے کیلئے غوروفکر کر رہے ہیں۔ بہر حال عوام وزیراعظم کے دعوئوں اور یقین دھانیوں پرعملدرآمد کے بے چینی سے منتظر ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تین جلسوں نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا عروج پیدا کردیا ہے۔ گوجرانوالہ (پنجاب) کراچی (سندھ) کوئٹہ (بلوچستان) اور اب چوتھا جلسہ پشاور(کے پی کے) میں ہوگا۔جسکی میزبانی عوامی نیشنل پارٹی کرینگی اور یقینی طور پر اس جلسے سے پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان بھی خطاب کرینگے اس طرح چاروں صوبوں میں اپنے جلسوں سے پی۔ڈی۔ایم نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس پرـــ’’انتخابی سرگرمیوں ‘‘ کا گماں ہوتا ہے اور پھر پانچویں ’’مجوزہ صوبے‘‘ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری خود موجود ہیں جہاں 15 نومبر کو انتخابات ہورہے ہیں تاہم جس طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بذریعہ ویڈیو لنک کوئٹہ کے جلسے میں عوام سے خطاب کیا ، بلاول بھٹو جو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں انھوں نے بھی بصری رابطے کے ذریعے بلوچستان کے عوام سے خطاب کیا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کوئٹہ میں اصل شو مولانا فضل الرحمن کا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مریم نواز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس جلسے سے میاں نواز شریف خطاب کرتے ہیں پورے ملک میں عوام اور ـ’’خواص‘‘ کی دلچسپی ان کے خطاب میں ہی ہوتی ہے اور برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ حوالہ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کوئٹہ کے جلسہ عام میں ویڈیو لنک پرخطاب دوسرا موقعہ تھا جب حکومت مخالف اجتماع میں عدم شرکت کے باوجود انھوں نے بلوچستان کے عوام سے خطاب کیا ۔
اس سے قبل جب جنرل(ر)پرویز مشرف نے انھیں اقتدار سے محروم کر کے جلاوطنی پر مجبور کردیا تھا اور 2007 میں ان کے خلاف اپوزیشن کی مہم چلی تھی اس وقت بھی آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ (اے۔پی۔ڈی۔ایم) سے میاں نواز شریف نے کوئٹہ کے صادق شہید گرائونڈ میںلندن سے ہی ٹیلیفونک خطاب کیا تھا اور گذشتہ اتوار کو 13 سال بعد اس مرتبہ بھی نامساعد سیاسی حالات اور علالت کے باعث انھوں نے لندن سے خطاب کیا۔
بعض حلقوں کا دعویٰ اور کچھ کا یہ خیال تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے بعض معاملات میں ریلیف لینے کےلیے بعض علامتی اشارے اور پیغامات حکومت کو دے رہی ہے۔ جس میں بلاول بھٹو کی کوئٹہ جلسے میں غیرحاضری اور اس موقعہ پر گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کو جواز بنا کروہاں ان کا طویل قیام بھی اس سلسلے کی کڑی ہے لیکن کوئٹہ کے جلسہ عام میں ویڈیو لنک سے خطاب کرنے سے اس تاثر کی تردید ہوئی تاہم 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات جہاں یقیناً گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے وہاں انتخابات میں حصہ لینے والی اہم جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سرفہرست ہے۔
جبکہ سیاسی اور انتخابی روایات کا پس منظریہ ہے کہ آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسکی وفاق میں حکومت ہو۔ جس کیلئے پاکستان تحریک انصاف بھی ماضی کی ان انتخابی روایات کو برقرار رکھنے کیلئے پوری طرح سرگرم عمل ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھوں مشکلات کا شکار وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ’’بڑا ریلیف‘‘ دے سکتی ہے۔