پاکستانی کرکٹ ٹیم ہوم گراونڈ پر زمبابوے کی نسبتا کمزور ٹیم کے خلاف محدود اوورز کی سیریز کھیلنے میں مصروف ہے۔
ہیڈکوچ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف پاکستان کو دنیا کی تین بہترین ٹیموں میں شامل کرانا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مصباح الحق کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بننے کے بعد پاکستان ٹیم کو ٹی ٹوئینٹی میں بھی نمبر ایک پوزیشن سے محروم ہونا پڑا ہے۔
ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں بھی بڑی ٹیموں کے خلاف پاکستان کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی ہے۔اب یہ مصدقہ خبر گردش میں ہے کہ ایک سال بعد اظہر علی کو ٹیسٹ میچوں کی قیادت سے سبکدوش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کو زمبابوے کے خلاف سیریز کے بعد نیوزی لینڈ،جنوبی افریقا اور انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف سیریز کھیلنی ہے ۔
یقینی طور پر اگلے چھ سے آٹھ ماہ میں مصباح الحق کی ہیڈ کوچ کی حیثیت سے کارکردگی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔کیوں کہ زمبابوے کے بعد پاکستان کو تمام سیریز بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ پہلے ہی مصباح الحق کو چیف سلیکٹر کی ذمے داریوں سے فارغ کرچکا ہے لیکن نومبر تک وہ دونوں عہدوں پر کام کرتے رہیں گے۔پاکستان کرکٹ میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ میرٹ ہے۔
مصباح الحق کی غیر جانب داری پر شک نہیں ہے لیکن بعض دفعہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سلیکشن میں ایسی فاش غلطیاں ہوجاتی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی جانب داری دکھا رہی ہے۔
حال ہی میں زمبابوے کے خلاف سیریز کے لئے22رکنی ٹیم میں عثمان قادر کی شمولیت اور باصلاحیت لیگ اسپنر زاہد محمود کو نظر انداز کرنے پر کئی سوالات اٹھے تھے۔32سالہ زاہد محمود سندھ کے شہر دادو سے تعلق رکھتے ہیں۔قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کے باوجود زاہد محمود کو پاکستان ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی عثمان قادر اچھے بولر ہیں تو وہ مسلسل پاکستان ٹیم کے ساتھ دورہ کررہے ہیں انہیں گراونڈ میں کیوں اتارا نہیں جارہا۔زاہد محمود نے قائد اعظم ٹرافی کے پہلے میچ میں بھی دس وکٹیں لے کر سلیکٹرز کو جگانے کی کوشش کی۔
وہ سابق کھلاڑی جو باہر بیٹھ کر سلیکشن کمیٹی اور مصباح الحق کو اڑاتے تھے اب ان کی توپیں خاموش ہیں اور زاہد محمود جیسے کھلاڑی انصاف کے منتظر ہیں۔این بی پی اسپورٹس کمپلیکس کراچی میں کھیلے گئے میچ میں سدرن پنجاب نے گزشتہ سال کی فائنلسٹ ناردرن کو ایک اننگز اور 96 رنز سے ہرا یا ۔ اسپنر زاہد محمود نے میچ میں 10 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔میچ کے تیسرے روز تین وکٹوں کے نقصان پر 31 رنز سے اپنی دوسری اننگز کا دوبارہ آغاز کرنے والی ناردرن کی پوری ٹیم 65.1 اوورز میں 246 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔
پہلی اننگز میں 4 وکٹیں حاصل کرنے والے زاہد محمو دنے دوسری اننگز میں 57 رنز کے عوض 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس سے قبل ناردرن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیاتھا تو اس کی پوری ٹیم اپنی پہلی اننگز میں 165 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ جواب میں سدرن پنجاب نے 9 وکٹوں کے نقصان پر 507 رنز پر اپنی پہلی اننگز ڈکلیئر کردی تھی۔زاہد محمود ایک ایسی مثال ہیں جس پر شائد سلیکشن کمیٹی کو آسانی سے بھاگنے کو موقع نہیں ملے گا پھر اگر چھوٹے شہر کا کھلاڑی پاکستان ٹیم میں آئے گا تو یقینی طور پر اس شہر میں کرکٹ کی مقبولیت بڑے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی زاہد محمود کی سلیکشن کے معاملے پر سلیکٹرز کی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ۔ احسان مانی کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ پاکستان ٹیم کی سلیکشن میں سندھ کارڈ استعمال کیا گیا۔یہاں ملک کا کوئی نہیں سوچتاہر شخص صوبائیت کی بات کرتا ہے۔
زمبابوے کے خلاف کھلاڑیوں کے انتخاب میں انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے،مصباح الحق پر جانب داری کا غلط الزام لگایا جاتا ہے۔ہر سلیکشن پر انہیں احتساب سے گذرنا پڑتا ہے۔وہ بورڈ کو جواب دے ہیں۔قومی سلیکشن کمیٹی نے زمبابوے کے خلاف سیریز کے22ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست دوکروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی کے کسی کھلاڑی شامل نہیں ہے۔جبکہ سندھ کے واحد کھلاڑی فاسٹ بولر محمد حسنین ہیں۔سرفراز احمد،دانش عزیز ،اعظم خان کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔قائد اعظم ٹرافی میں فاسٹ بولر تابش خان کی کارکردگی نے سلیکٹرز کی اہلیت پر سوال اٹھایا ہے۔
تابش نے سندھ کی جانب سے پہلے میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں اور پانچویں وکٹ لینے کے بعد وہ روپڑے اور ان کے آنسو بتارہے تھے کہ وہ سالہا سال سے کارکردگی دکھا کر سلیکٹرز کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن سلیکشن کمیٹی تابش کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔پی سی بی مانے یا نہ مانے زاہد محمودکی سلیکشن پر مصباح الحق کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔سندھ کے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے بھی سوشل میڈیا پر سندھ کے کھلاڑیوں خاص طور پر دادو کے لیگ اسپنر زاہد محمود کو نظر انداز کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا۔جبکہ سندھی اخبارات اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چیلنز بھی اس بارے میں سراپا احتجاج ہیں۔
سندھ خاص طور پر کراچی کے کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے کے بارے میں احسان مانی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس سوچ پر افسوس ہے۔ہم نے کسی ایک صوبے کی نہیں، میرٹ پر پاکستان کی ٹیم منتخب کی ہے۔ہمارا سلیکشن کا ایک پیمانہ ہے اس پیمانے کے مطابق جو بھی میرٹ پر آئے گا اس کوٹیم میں شامل کیا جائے گا۔زمبابوے کے خلاف ٹیم کا انتخاب مصباح الحق نے اکیلے نہیں کیا ،مصباح الحق کے علاوہ چھ اور سلیکٹرز ہیں جن میں سب پاکستان کی جانب سے کھیلے ہوئے سابق کھلاڑی ہیں۔احسان مانی نے کہا کہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے اور ہم کوٹہ سسٹم پر ٹیم تشکیل نہیں دیتے۔
سلیکٹرز فیصلوں میں بااختیار ہیں لیکن اگر کسی حوالے سے کوئی شکایت آتی ہے تو ہم اس پر ضرور غور کرتے ہیں۔احسان مانی نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں احتساب کا نظام موجود ہے۔وسیم خان،مصباح الحق اور اظہر علی سمیت ہر شخص کو احتساب سے گذرنا ہوتا ہے۔ہر سال ہر ملازم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے جس میں سزا اور جزا کا نظام موجود ہے۔مصباح الحق پر بوجھ کم کرنے کے لئے ان سے ایک ذمے داری واپس لی گئی ہے ۔وہ30نومبر تک چیف سلیکٹر ہیں اس کے بعد نیا چیف سلیکٹر آئے گا۔مصباح الحق کو چیف سلیکٹر سے ہٹانے کا مقصد یہ ہے کہ قائد اعظم ٹرافی شروع ہورہی ہےچیف سلیکٹر گراونڈ میں جاکر کھلاڑیوں کو دیکھے۔
مصباح الحق کو پاکستان ٹیم پر فوکس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔امید ہے کہ مصباح الحق جب ایک عہدے سے ہٹیں گے تو وہ زیادہ توجہ پاکستانی ٹیم پر دیں گے اور ان تبدیلیوں سے پاکستان ٹیم بھی بہتر ہوگی۔احسان مانی نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں ہر ادارے کی طرح احتساب کا نظام ہے۔گذشتہ دنوں ہم نے مصباح الحق کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا تھا۔اپریزل کے بعد ان سے ایک ذمے داری واپس لی گئی ہے۔
پی سی بی میں چیف ایگزیکٹیو،کپتان اور ہیڈ کوچ سمیت سب کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور سب کو احتساب کے لئے پیش ہونا ہوتا ہے۔پی سی بی کے سربراہ نے کہا کہ احتساب کی وجہ سے ایک بار انضمام الحق بورڈ آف گورنرز کے سامنے پیش ہوئے دوبار مصباح الحق پیش ہوچکے ہیں۔میڈیا چاہتا ہے کہ ہر بات اس سے شیئر کی جائے جو کسی بھی ملک کے کسی ادارے میں ممکن نہیں ۔
انضمام الحق اور مصباح الحق کو بی او جی میں کھانا کھانے کے لئے نہیں بلایا گیا تھا دونوں کو بلاکر سلیکشن پر کئی وضاحتیں طلب کی گئی تھیں ۔اسی طرح میں اور وسیم خان جب مصباح سے ملے تھے تو ہم نے بھی ان کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا تھا اور اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کردیا تھا۔احسان مانی نے مسلسل تنقید کی زد میں رہنے والے پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کو قبل از وقت ذمے داریوں سے سبکدوش کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ انہیںمعاہدےکے مطابق وقت دیا جارہا ہے۔بار بار تبدیلی سے نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
احسان مانی نے دعوی کیا کہ مصباح الحق کا تقرر ی تین سال کے لئے ہو ئی ہے، انہیں قبل ازوقت ذمے داریوں سے سبکدوش کرنے کی کوئی تجویز نہیں ۔مصباح سمیت ٹیم انتظامیہ کے تمام لوگ ٹھیک انداز میں کام کررہے ہیں۔
بار بار تبدیلی کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس سے نتائج نہیں آسکتے۔احسان مانی نے کہا کہ پی سی بی درست سمت میں آگے جارہا ہے۔ہمیں وقت درکار ہے راتوں رات سب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔ہم ایک وقت میں کئی چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔اس کے باوجود غیر ملکی کنسلٹنٹ کی مشاورت سے پاکستان کرکٹ کے سسٹم کو ٹھیک کررہے ہیں۔سینٹر آف ایکسی لینس لارہے ہیں۔قومی کوچنگ پروگرام پر کام ہورہا ہے ، سٹی کرکٹ اور کلب کرکٹ کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔
احسان مانی نے اس تاثر کوغلط قرار دیا ہے کہ سرفراز احمد کو کپتانی سےہٹانے کے لئے پی سی بی کو بنی گالا سے ہدایات ملی تھیں۔یہ خالصتا میرا فیصلہ تھا۔وزیر اعظم عمران خان سے مختلف امور پررہنمائی لیتے رہتے ہیں۔وہ ملک چلانے میں مصروف ہیں اور وہ کرکٹ کے امور میں کوئی مداخلت نہیں کرتے۔عمران خان کے وژن کے مطابق کرکٹ بورڈ کے امور چلارہے ہیں ۔
چند سال میں نئے سسٹم کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔اس وقت اظہر علی کو ٹیسٹ کی کپتانی سے ہٹانے کے بارے میں اس وقت کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔میڈیا میں قیاس آرائیاں ہورہی ہیں زمبابوے کی سیریز کے بعد ٹیسٹ کپتان کا فیصلہ کرکٹ کمیٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔میں اپنے فیصلے آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کررہا ہوں۔
حرف آخر یہ ہےکہ احسان مانی صاحب آپ میڈیا سے ہر بات شیئر نہ کریں لیکن اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے زاہد محمود ،تابش خان اور ان جیسے کئی کھلاڑی نظر انداز ہورہے ہیں۔