پاکستان فلم انڈسٹری کی صورتِ حال اِن دنوں بہت خراب ہے۔ سنیما گھروں کو کئی ماہ سے تالے لگے ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس نے فلم انڈسٹری سے منسلک ہنر مندوں میں اُداسی پھیلائی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بھی چند باہمت اور جرأت مند فن کار آگے بڑھ کر اس بدترین صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے میدانِ عمل میں اتر رہے ہیں اور اپنی فلموں کی ریلیز کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ نوجواں ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا نے اپنی نئی فلم ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کا پروموشن شروع کر دیا گیا ہے، جب کہ دوسری جانب ہدایت کار یاسر نواز اور وجاہت رئوف نے اپنی فلموں کی رُکی ہوئی فلموں کی شوٹنگز کا پھر سے آغاز کر دیا ہے۔
کام یاب لوگوں کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اُمید کا دامن کسی بھی صورتِ حال میں نہیں چھوڑتے۔ ایسے ہی جواں فکر اور جرأت مند فن کار عدنان صدیقی ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کورونا وائرس کی وباء سے گھبرائے بغیر فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس فلم میں ڈراما سیریل ’’رانجھا رانجھا‘‘ سے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والے فن کار عمران اشرف پہلی مرتبہ سینما اسکرین پر جلوے بکھیریں گے، جب کہ ان کے ساتھ بہ طور ہیروئن امر خان کام کر رہی ہیں۔
فلم کی شوٹنگ ان دِنوں تیزی سے جاری ہے۔ گزشتہ دِنوں کراچی کے مختلف مقامات پر فلم کی شوٹنگ ہوئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر احتشام الدین ہیں، جو گزشتہ برس ماہرہ خان اور بلال اشرف کو لے کر’’ سپر اسٹار‘‘ جیسی کام یاب فلم ڈائریکٹ کرچکے ہیں، فلم’’دم مستم‘‘‘ میں بھی وہ تمام فن کاروں سے جم کر اداکاری کروا رہے ہیں۔
فلم ساز اور اداکار عدنان صدیقی نے شوبزنس میں دوسری اننگ شروع کی ہے۔ انہیں سب سے پہلے ڈراما سیریل ’’عروسہ‘‘ سے شہرت حاصل ہوئی تھی بعد ازاں وہ بھارتی اداکارہ سری دیوی کے ساتھ فلم ’’مام‘‘ میں عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا اور پھر انہوں نے خلیل الرحمٰن قمر کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ میں مرکزی کردار سے شہرت کی بلندیوں کو چُھوا۔
اس ڈرامے میں اُستاد راحت فتح علی خان کے گائے ہوئے ٹائٹل سونگ نے سوشل میڈیا پر دُھوم مچا دی تھی۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے فلم ساز عدنان صدیقی نے اُستاد راحت فتح علی خان کو اپنی فلم ’’دم مستم‘‘ میں بہ طور گائیک شامل کیا۔ گزشتہ ہفتے پانچ ستاروں والے ہوٹل میں استاد راحت فتح علی خان کے کام کو فلم بند کیا گیا۔ اس موقع پر فلم کی پُوری کاسٹ بھی موجود تھی۔ استاد راحت فتح علی خان نے ہمیشہ پاکستانی فلموں اور ڈراموں کو سپورٹ کیا ہے۔
نئی نسل کے مقبول اداکار آج کل فلم سازی میں گہری دل چسپی لے رہے ہیں۔ بالی وڈ سے شہرت حاصل کرنے والے مقبول اداکار فواد خان بھی’’ نیلوفر‘‘ کے نام سے ایک فلم ہروڈیوس کررہے ہیں، جس میں ماہرہ خان اور مدیحہ امام کو بھی کاسٹ کیا گیا ہے۔ چند برس قبل ڈراموں اور فلموں کے سپر اسٹار ہمایوں سعید نے فلم سازی کے میدان میں قدم رکھا۔انہیں اس میں زبردست کام یابی حاصل ہوئی۔ وہ پہلے ہی ڈراما پروڈکشن میں کام یابی حاصل کر چکے تھے۔
بعدازاں فلم سازی کی جانب آئے۔ ہمایوں سعید نے سب سے پہلے فلم ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ بنائی، جس میں پہلی بار ڈراموں کی نامور اداکارہ ماہ نور بلوچ نے آئٹم سونگ پرفارم کیا تھا۔ اس فلم کا ہمایوں سعید کے بعد سب سے زیادہ فائدہ ماہ نور بلوچ کو حاصل ہوا۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی مقبول فن کارہ ماہ نور بلوچ کا آئٹم سونگ دیکھ کر سب کو خوش گوار حیرت ہوئی۔ ’’میں ہُوں شاہد آفریدی‘‘ نے فلم انڈسٹری کی کام یابی کے لیے دروازے کھولے اور جمود کو توڑا تو کئی فلم ساز سامنے آگئے۔ ہمایوں سعید اس فلم کے بعد ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ پنجاب نہیں جائوں گی اور جوانی پھر نہیں آنی پارٹ ٹو بھی پروڈیوس کیں۔
ان فلموں کو بھی فلم بینوں نے بے حد سراہا۔ ہمایوں سعید کی فلم سازی میں کام یابی دیکھ کر کچھ اور فن کاروں نے بھی فلم سازی کے میدان میں قدم رکھا۔ ٹیلی ویژن کے معروف اداکار یاسر نواز نے تین چار فلموں پروڈیوس کیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ’’رانگ نمبر‘‘ بنائی اس فلم میں بہ طور ہیرو دانش تیمور اور بہ حیثیت ہیروئن سوہائے علی ابڑو کو بے حد پسند کیا گیا۔ اس فلم کی کام یابی میں جاوید شیخ کی غیر معمولی پرفارمینس نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ’’رانگ نمبر‘‘ کی کام یابی نے یاسر نواز کے حوصلے بلند کیے، تو انہوں نے دوسری فلم ’’ مہرالنسا وی لب یُو‘‘ کے نام سے پروڈیوس کی۔
اس فلم میں اس بار دانش تیمور کی ہیروئن بنیں، ٹیلی ویژن ڈراموں کی سپر اسٹار ثناء جاوید۔ اس فلم نے رانگ نمبر جیسی مقبولیت تو حاصل نہیں کی، البتہ وہ کام یاب ثابت ہوئی۔ بعدازاں یاسر نواز نے ’’رانگ نمبر2‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم میں ٹیلی ویژن کی سپر اسٹار نیلم منیر کو ہیروئن اور سمیع خان کو بہ طور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ ’’رانگ نمبر2‘‘ میں نیلم منیر نے عمدہ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا، جب کہ جاوید شیخ، ثناء جاوید اور خود یاسر نواز نے بھی اپنے اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ یاسر نواز ان دنوں ایک اور نئی فلم ’’چکر‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔
ہمایوں سعید اور یاسر نواز کی کام یابی کو دیکھتے ہوئے ٹیلی ویژن کے صفِ اوّل کے اداکار فیصل قریشی نے فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ فلم کا کام ’’سوری‘‘ رکھا گیا اور اس کے ہدایت کار احسن رحیم تھے۔ ’’سوری‘‘ کی تعارفی تقریب شان دار انداز میں کی گئی۔ فلم انڈسٹری کے چمکتے ستاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے تقریب کو کام یاب بنایا۔ البتہ ’’سوری‘‘ تاحال مسائل کا شکار ہے۔ فیصل قریشی کو فلم سازی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ فلم کب تک سینما گھروں کی زینت بنتی ہے۔
فیصل قریشی کی طرح پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب ہیرو معمر رانا نے بھی ایک فلم پروڈیوس کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی تعارفی تقریب کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی۔ فلم میں بہ طور ہیروئن حیا سہگل کو کاسٹ کیا گیا۔ سینئر اداکار ندیم کو بھی فلم میں شامل کیا گیا۔ اس فلم کا نام ’’سکندر‘‘ رکھا گیا، مگر اس کی شوٹنگ کچھ عرصے بعد تعطل کا شکار ہوگئی۔ پاکستانی فلموں کے وِلن شفقت چیمہ نے بھی فلم ’’ جیوسر اٹھا کر‘‘ بنائی، مگر انہیں خاطر خواہ کام یابی نہیں ملی۔
پاکستانی فلموں کے سپر اسٹار شان نے بھی فلم سازی شروع کی۔ مگر انہیں بہ طور فلم ساز سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بھارتی فلم ارتھ کا ری میک بنایا۔ ’’ارتھ ٹو‘‘ کو فلم بینوں نے پسند نہیں کیا۔ اس فلم میں حمیمہ ملک، مُحب مرزا، عظمیٰ حسن اور دیگر شامل تھے۔ شان کے ہوتے ہوئے بھی فلم باکس آفس پر کوئی رنگ نہیں جماسکی۔ شان نے بعدازاں ایک فلم ’’ضرار‘‘ پروڈیوس کی۔ دو تین برسوں سے یہ فلم بھی سنیما گھروں کی زینت نہیں بن پا رہی ہے۔
ماضی میں بھی پاکستانی فن کاروں نے فلم سازی میں خود کو آزمایا تھا، کچھ کو کام یابی ملی اور کچھ نے اداکاری سے کمایا ہوا سرمایہ بھی پروڈکشن کے شوق میں ضائع کر دیا تھا۔ اداکار ندیم نے فلم ’’مکھڑا‘‘ پروڈیوس کی اور وہ کام یاب ثابت ہوئی۔ وحید مراد نے فلم سازی میں غیر معمولی کام یابیاں حاصل کیں۔ شہنشاہ جذبات محمد علی اور زیبا، بھی فلم سازی کے عمل سے گزرے، مگر انہیں کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ رنگیلا کی پروڈیوس کی ہوئی چند فلموں نے خُوب رنگ جمایا۔
آج ہم نے نئی نسل کے ہیروز کی فلم سازی کی صلاحیتوں پر ایک نظر دوڑائی۔ کچھ اداکار ڈراما پروڈکشن کام یابی سے کررہے ہیں، ان میں سب سے اہم نام نامور اداکار فہد مصطفیٰ کا ہے، ان کے بعد اداکار احسن خان بھی ڈرامے پروڈیوس کررہے ہیں۔ فلم سازی کے حوالے سے سب سے زیادہ کام یابی ہمایوں سعید اور یاسر نواز کو حاصل ہوئی۔
اب عدنان صدیقی بھی قسمت آزمانے میدان میں آگئے ہیں۔ ان کی فلم’’ دم مستم‘‘ کیا رنگ جماتی ہے۔ اس کے لیے فلم کی ریلیز تک انتظار کرنا ہوگا۔ فن کاروں کا فلم سازی کی جانب آنا خوش آئند بات ہے۔ اس عمل سے انڈسٹری مزید ترقی کرے گی۔