”دی اکانومسٹ“ اپریل 2013ء کے دوسرے شمارے کا سر ورق مارگریٹ تھیچر کا تھا۔ اداریہ بھی ان کے انتقال پر ان کے عنوان سے تھا۔ اس میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ سابق وزیراعظم برطانیہ کو فریڈم فائیٹر کہا گیا جس نے دنیا کی ایک ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مٹھی بھر عالمی اجارہ داروں کی ایسی آزادی کی بات کی ہے جس کے نتیجے میں آج دنیا معاشی بحران کا شکار ہے اور اس سیارے کی پانچ ارب آبادی روزگار، شکم اور سانس کی ڈوری کو بمشکل تھامے ہوئے اذیت ناک زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جریدے کے دانشور فریڈم فائیٹر کے معنیٰ بھول بیٹھے ہیں کیونکہ مارگریٹ تھیچر کو 1989ء میں ان کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا لیکن دنیا کو لبرلائزیشن، پرائیوٹائزیشن اور قرضوں کی کھائی میں دھکیل کر عالمی صارف کو بے رحم معاشی نظام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سرمایہ داری کے اس نئے کھیل کو تھیچر ازم بھی کہتے ہیں جس نے خود ترقی یافتہ ملکوں کو کرنسیوں کے جوئے اور سود کے مدوجزر اور منافع خوری کے جال میں پھنسا کر رکھ دیا ہے۔ نتیجتاً اٹلی، پرتگال، آئرلینڈ، اسپین اور یونان شدید معاشی بحران میں مبتلا ہیں۔ مزید برآں یورو زون اور ڈالر اپنی موت کے انتظار میں ہیں۔ اینرون بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے زمین بوس ہونے کے بعد اور 2008ء میں عالمی مالیاتی نظام کے انہدام دونوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کارپوریٹ اور سٹہ باز سرمایہ داری کا نظام کس قدر بودہ ہے جو دنیا کی غریب عوام پر بوجھ ڈالے بغیر چلنے کے قابل نہیں رہا جسے تھیچرازم میں نیو لبرل ازم بھی کہتے ہیں۔ سیارہ ارض کے خاک بسر صدیوں سے بھوک اور بیماری کی مار کھاتے آ رہے ہیں۔ شاید ذلتوں کے مارے لوگ مار کھا کر رونا نہیں چاہتے تاکہ مارنے والے کو اذیت ہو لیکن ایسا بھی نہ ہوا۔ کہیں اس بے حسی کا شکار تو نہیں ہیں کہ نیکی کو پختہ کرنے کیلئے برے نظام کا ساتھ دینا اور قسمت کا لکھا سمجھنا ضروری سمجھتے ہوں۔
اسی لئے ایک طرف ڈالر چھاپے جا رہے ہیں دوسری طرف عوام کے ٹیکسوں سے رقوم نکال کر عالمی دیوالیہ بینکوں کو بیل آؤٹ پیکیج دیئے جا رہے ہیں۔ غالباً اسی تناظر کو ہی سامنے رکھتے ہوئے ”اکانومسٹ“ نے یہ بھی اداریئے میں لکھ دیا ہے کہ ”چرچل نے دوسری عالمی جنگ میں فتح حاصل کر لی لیکن وہ کوئی ”ازم“ نہیں دے سکے لیکن تھیچرازم کے اصولوں کو آج بھی مضبوطی سے پکڑنے کی ضرورت ہے“۔ ٹھیک لکھا ہے اگر انہیں مضبوطی سے نہ پکڑا گیا تو سرمایہ داری نظام چوپٹ ہوجائے گا۔ تھیچر اور ریگن کے مطابق ریاست کی مداخلت کو بالکل ختم کر دینا چاہئے لیکن جب عالمی مالیاتی نظام منہدم ہوا تو دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے اپنی اپنی حکومتوں کے سامنے کشکول گدائی پھیلا دیا۔ انہیں عوامی ٹیکسوں سے حاصل کردہ ریونیو سے رقوم مہیا کر کے پھر سے لوٹنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔ بعض مغربی لکھنے والوں نے اسے سرمایہ دارانہ نیشنلائزیشن لکھا۔ اس پس منظر میں دنیا کے معروف دانشور متعدد کتابوں کے مصنف نوم چومسکی اپنی کتاب ”پرافٹ اور پیپل“ میں لکھتے ہیں ”نیو لبرل ازم عصر حاضر کا سیاسی اور معاشی ماڈل ٹھہرا ہے۔ یہ اس حوالے سے جانا جاتا ہے کہ اس کی پالیسیاں مٹھی بھر عالمی نجی مفادات کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ جس قدر چاہیں سماجی زندگی کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کی ابتدا ریگن اور مارگریٹ تھیچر نے کی تھی جس کا فائدہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہوا“۔ کیا یہ امر باعث ندامت نہیں ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے گودام خوراک سے بھرے ہوئے ہیں اور کروڑوں انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ بھی آپ کے اور میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ گندم کی زائد پیداوار کی وجہ سے امریکہ نے اسے سمندر برد کر دیا تاکہ طلب بڑھنے سے انہیں قیمت زیادہ ملے۔ کلائیو ہیملٹن اکنامک گلوبلائزیشن کا نعم البدل کتاب میں لکھتے ہیں ”ایسی دنیا جس میں چند لوگ ناقابل تصور دولت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اور اسی دنیا میں 5 سال سے کم عمر 200 ملین بچے وزن کی بے حد کمی کا شکار ہوں کیونکہ انہیں خوراک میسر نہیں، 100 ملین سے زائد بچے سڑکوں پر رہتے اور کام کرتے ہوں، تین لاکھ بچے 1990ء کی دہائی میں سپاہی کے طور پر جبری بھرتی ہوئے ہوں اور ہر روز 800 ملین بچے ہر رات بھوکے ہوتے ہوں“ کیا اس دنیا کو تھیچرازم نے مزید آگے بڑھایا۔ جسے فریڈم فائیٹر کے اعزاز سے ایک مستند اور مقبول جریدے نے نوازا۔
اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ دلا بھٹی، ہوچی منہ، چی گویرا، بھگت سنگھ، رائے احمد کھرل، اسپارٹیکس، اسکاٹ لینڈ کے ولیم وائلس، ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے درجنوں فریڈم فائیٹر جنہوں نے حریت اور آزادی کے لئے سامراج کے خلاف جدوجہد کی اور جان کا نذرانہ پیش کیا، کیا مارگریٹ تھیچر کو ان عظیم شخصیات کی صف میں کھڑا کرنا جائز ہے؟ فریڈم فائیٹر کا اجمالی جائزہ لینے کیلئے دلا بھٹی کے بارے میں جریدہ ”ساراں“ صفحات 80,70,60 میں لکھا ہے جب ”دلے“ کو لاہور کی گھوڑے منڈی میں پھانسی دی جا رہی تھی تو ہجوم میں مادھولال حسین بھی شامل تھے۔ علی کوتوال اسے دیکھ کر ”دُلے“ کو بھول جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ لال حسین اس کے آقاؤں کے راج کا اتنا ہی بڑا دشمن ہے جتنا خود دُلا۔ کوتوال سمجھتا ہے کہ لال حسین دُلا بھٹی کی زبان ہے۔ جب تک لال حسین کی زبان آزاد ہے دُلا بھٹی کے ہاتھ بھی آزاد رہیں گے اور خود دُلا بھی جانتا تھا کہ سانسوں کے ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ وہ جس انداز میں جیا اسی انداز میں مرا، دُلا زندہ تھا تو مغلوں کو امید تھی کہ وہ کسی حیلے سے شاید جھک جائے لیکن ”دُلے“ کو مار کر سولی پر اس کے عشق کا رنگ دیکھ کر مغلوں نے اسے ہمیشہ کے لئے اپنے گلے کی رسی بنا لیا۔“ پھر دیکھئے کہ بھگت سنگھ آزادی کا متوالا 1929ء میں 24 سال کی عمر میں انگریزوں کی پارلیمنیٹ میں بم پھینکنے کے الزام میں دار کی رسیوں کو چومتا ہے اور ہم سب اسے فریڈم فائیٹر کہتے ہیں۔
عصر حاضر میں جس نظام کو مارگریٹ تھیچر اور اس کے حواریوں نے مزید تقویت دی اس کی لوٹ مار افریقہ اور لاطینی امریکہ میں صدیوں سے جاری ہے۔ بولیویا اور ایکویڈور خون ریزی اور لوٹ مار کی امریکی دہشت گردی کی خوفناک کہانی ہے جس کا تازہ منظر افغانستان اور عراق میں آپ سب دیکھ رہے ہیں۔ ان دونوں لاطینی ملکوں کا حکمران طبقہ امریکہ کا حاشیہ بردار ہے۔ یہاں کے غریب لوگ جنہیں فریڈم فائیٹر کہتے ہیں انہیں مالدار طبقے نیم انسان سمجھتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ غریب آدمی کو ہر ملک میں انسان کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ سامراجی تشدد کے خلاف لاطینی امریکہ کا فریڈم فائیٹر چی گویرا کے
بارے میں جان پرکنز اپنی کتاب ”امریکی مکاریوں کی تاریخ“ میں لکھتا ہے ”ارجنٹائن کے فزیشن چی گویرا نے اسی نکتے کو سامنے رکھ کر جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور بولیویا میں اپنا محاذ جنگ کھولا۔ حکمران طبقے نے واشنگٹن کے حکام سے فریاد کی جس پر اسے بدترین زمرے کا دہشت گرد قرار دیا گیا کیونکہ اسے کیوبا کی بھی مدد حاصل ہو گئی۔ اس کے خطرناک ہونے کا ایک درجہ بڑھا، اسے شکار کرنے کے لئے اپنے انتہائی تربیت یافتہ گیدڑوں میں سے ایک گیدڑ بھیج دیا گیا، یہ سی آئی اے کا ایجنٹ فلگر روڈریگویز تھا۔ اس نے 1967ء کے ماہ اکتوبر میں چی گویرا کو بولیویا کے جنگل کے قریب پکڑ لیا۔ کئی گھنٹوں کے تشدد کے بعد اسے بولیویائی فوج کے فائرنگ اسکواڈ نے چھلنی کر دیا“۔ اگر مذکورہ جریدہ برٹرینڈرسل یورپ کے فلاسفر کو فریڈم فائیٹر لکھ دیتا تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ”کیوبن بحران“ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر کے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا۔ انہوں نے سابق سوویت یونین کے میزائل ہٹانے پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ”بغیر اسلحہ کے فتح“۔ اگر فرانس کے فلاسفر ژاں پال سارتر کو فریڈم فائیٹر لکھ دیا جاتا ہے تو اسے تسلیم کر لیا جاتا کیونکہ انہوں نے الجزائر کی آزادی کی بھرپور حمایت کی لیکن مارگریٹ تھیچر کو فریڈم فائیٹر لکھ کر ذہن میں یہ خدشہ ابھرتا ہے کہ ان کے حاشیہ بردار فریڈم فائیٹر کے یہ معنیٰ نصاب میں نہ ڈال دیں۔ جب ایسی سوچ ابھرے گی تو مارگریٹ تھیچر کے ساتھ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف بھی کھڑے ہوں گے پھر کالم لکھنے کے بجائے زندگی لکھنا مسئلہ ہو گا لیکن اس سے تضاد سمجھ آئے گا، نئی تشویش، نئے خدشے، نئے دھڑکے، نئے تفکرات، نئی خوشیاں اور نئی آرزوئیں زندگی لکھنے پر اکسائیں گی۔