• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے صدر نے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرکے ووٹ بنک بڑھایا، افضل خان

مانچسٹر(غلام مصطفیٰ مغل) فرانس کے صدر نے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کر کے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کی کوشش کی ہے حالانکہ ایسا بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی - ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شیڈو ڈپٹی لیڈر برطانوی پارلیمنٹ محمدافضل خان نے کہا کہ یورپی معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کے جذبات کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ فرانس کے صدر کا یہ بیان بھی سیاسی اینگلنگ کا حصہ ہے کیونکہ انتخابات قریب آرہے ہیں اور وہ قوم کواس مسئلہ میں الجھاکر ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے - انہوں نے کہا کہ گو یورپ میں مذہب کی بنیاد پر الیکشن نہیں ہوتے اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پرالیکشن لڑے جاتے ہیں لیکن مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں برٹش نیشنل پارٹی کا لیڈر نک گرفن خود میرے مقابلے پر آیا اور اس نے ایک اشتہار شائع کروا کر گھر گھرتقسیم کیا کہ نارتھ ویسٹ سے آٹھ لوگ منتخب ہوں گے - بڑی پارٹیوں کے امیدوار تو جیت ہی جائیں گے لیکن میرا مقابلہ ایک مسلمان امیدوار کے ساتھ ہو گا ، تاہم لوگوں نے مجھے ووٹ دئیے اور نک گرفن ناکام ہو گیا - چنانچہ الیکشن میں کامیابی کے بعد میں نے اس کا جواب دیا کہ تم نے نارتھ ویسٹ کے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کےلئے مذہب کا کارڈ کھیلا لیکن لوگوں نے تمہیں مسترد کر دیا اور مجھے کامیاب کروایا - اس بات سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یورپ کے لوگ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں تاہم کچھ عناصر ہیں جو مذاہب کو استعمال کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ کامیاب نہیں ہو سکتے -انہوں نے مسلم امہ کے اتحاد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے تاہم سادہ سی بات ہے کہ اتحاد بات چیت کا نہیں عمل کا نام ہے ، ہمیں خود ان تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ، ہم پیار محبت سے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں گے تو دوسرے بھی ہماری طرف بڑھیں گے کوئی بھی اچھا لیڈر کمیونٹی کو تقسیم نہیں کرے گا وہ اچھا لیڈر ہو ہی نہیں سکتا جو کمیونٹی کو تقسیم کرے ،ہم نے برٹش پارلیمنٹ میں ایک گروپ بنایا ہوا ہے جس کے مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں ، اس کامقصد اسلامو فوبیا کو کم کرنا ہے ، اسلامو فوبیا دراصل ایک کلچرل مس انڈرسٹینڈنگ ہے۔ یورپ میں مذہب کا اس قدر اختیار نہیں کہ وہ حکومتوں کو گائیڈ کر سکے تاہم مسلمانوں کو اس معاملے میں راہنمائی کی ضرورت ہے،ہمارے لئے یہ ناقابل برداشت ہے کہ کوئی نبی اکرمﷺ کے خلاف بات کرے، اسلاموفوبیا کو کم کیا جا سکتا ہے ، اس کےلئے ضروری ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعلقات کو بہتربنایا جائے، ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے اور دوسروں کو تکلیف نہ دی جائے،انہوں نے کہا کہ یورپ کی مسلمان آبادی کو اس کا ادراک ہونا چاہیے جن لوگوں کواس حوالے سے معلومات نہیں ہیں ان تک یہ معلومات پہنچانا ہمارا فرض ہے، ہمیں اپنے تعلقات کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے -انہوں نے ریاست جموں کشمیر کے عوام کی طرف سے یوم سیاہ منائے جانے کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 73 سال سے بھارت کشمیری قوم کے ساتھ ظلم کر رہا ہے ،وادی کشمیر میں مسلسل کرفیوکے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہاہے لیکن اب بھارت کے دن گنے جا چکے ہیں کیونکہ کشمیری قوم آزادی سے کم پر راضی نہیں ہو گی - انہوں نے کہا کہ یہ تقسیم ہند کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے بعد میں بھارت نے اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کاعندیہ دیا لیکن ابھی تک وہ اس پر عملدرآمد نہیں کروارہا ، پھراس نے کشمیریوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ بھی پورا نہیں کیا بلکہ اب تو اس نے غیر ریاستی باشندوں کےلئے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر پابندی بھی ہٹالی ہے۔ انہوں نے یورپی اقوام کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یورپی حکومتیں اس میں اپنا مفادد یکھتی ہیں حالانکہ برطانیہ میں ساڑھے تین ملین افراد ایسے ہیں جن کا کسی نہ کسی طور کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے براہ راست تعلق ہے، کئی یورپی حکومتیں اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع قرار دیتی ہیں حالانکہ تیسرے فریق کشمیری خود ہیں جب کہ اب چین بھی اس مسئلے میں چھوتھے فریق کے طور پر آ گیا ہے ،ایسے میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔انہوں نے میاں نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کرنے کے سوال کے جواب میں واضح کیا کہ یہ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ صحت سے متعلق ہے۔پاکستان کی حکومت کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ میاں نواز شریف کو جنوری میں پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا ، برطانیہ کی حکومت قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی،یہ فیصلہ ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل کو کرنا ہے جو قانونی تقاضوں پر عمل کئے بغیر ایسا نہیں کر سکتیں ،پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر برطانیہ کے ڈاکٹرز نے میاں نواز شریف کو بیمار قرار دے دیا تو ہوم سیکرٹری ایسا کوئی فیصلہ کریں گی ہی نہیں تاہم اگر وہ میاں نواز شریف کو پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر بھی لیں تو بھی نواز شریف کے پاس اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا آپشن موجود ہو گا جس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

تازہ ترین