• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ماضی کی خوبصورت فن کارہ ’’صوفیہ بانو‘‘

سعید ہارون آف ایسٹرن اسٹوڈیوز نے ہدایت کار جاوید ہاشمی کو مشورہ دیا کہ ’’بمبئی‘‘ سے کسی فن کارہ کو لے آئیں۔ جاوید ہاشمی ممبئی پہنچے اور ممبئی کی فلموں میں سپورٹنگ رول کرنے والی فن کارہ صوفیہ بانو سے کراچی کی چند فلموں کے لیے کنٹریکٹ کر کے انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئے۔ صوفیہ بانو کے ساتھ ان کے بھائی بھی آئے تھے۔ صوفیہ بانو کو کراچی کی جو پہلی فلم بہ طور ہیروئن ملی وہ ’’سہرا‘‘ تھی۔ جس کے ہیرو کمال، موسیقار نثار بزمی اور ہدایت کار جاوید ہاشمی تھے، لیکن ’’سہرا‘‘ افتتاحی تقریب اور نغمات کی ریکارڈنگ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ 

دریں اثناء اے ایچ صدیقی نے ’’چھوٹی بہن‘‘ کا آغاز کر دیا، جس میں صوفیہ بانو کو بہ طور ساتھی اداکارہ شامل کیا گیا۔ ’’چھوٹی بہن‘‘ کی لیڈ کاسٹ کمال، رانی اور محمد علی پر مشتمل تھی۔ 1964ء میں ریلیز ہونے والی صوفیہ بانو کی یہ ڈیبیو فلم باکس آفس پر نہ چل سکی۔ تاہم ہدایتکار اے ایچ صدیقی نے ہی اپنی اگلی فلم ’’اکیلے نہ جانا‘‘ میں صوفیہ بانو کو محمد علی کی ہیروئن بنا دیا۔ ’’اکیلے نہ جانا‘‘ کا اسکرپٹ محمد علی کے بڑے بھائی ’’ارشاد علی‘‘ نے تحریر کیا تھا۔ اس فلم کا کچھ کام سینٹرل جیل حیدرآباد میں بھی فلم بند ہوا تھا، جس میں محمد علی کو بہ طور قید مشقت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔1966ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بھی کام یابی سے محروم رہی۔ 

اس فلم میں صوفیہ بانو پر پکچرائزڈ نسیمہ شاہین کا گایا گیت ’’اکیلے نہ جانا، محبت کی راہوں میں‘‘ خاصا مقبول ہوا تھا۔ 1966ء ہی میں ان کی مزید تین فلمیں اقبال رضوی ہدایت کار الحامد کی ہم دونوں ’’منظر عام پر آئیں۔ آزادی یا موت میں صوفیہ بانو کے ہیرو حنیف تھے اور ’’ہم دونوں‘‘ میں وہ دیبا کے ساتھ سید کمال (ڈبل رول) کی ہیروئن تھیں۔ یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر مناسب رہیں۔ 1968ء میں سرور بارہ بنکوی کی ’’تم میرے ہو‘‘ اور الحامد کی ’’کھلونا‘‘ منظر عام پر آئیں۔ ’’تم میرے ہو‘‘ میں گو کہ ان کا کردار سپورٹنگ نوعیتی کا تھا، لیکن ایک پڑھی لکھی حسین بولڈ صاف گو عورت جو ایک ایسے شخص کی بیوی ہے، جس کا چہرہ خوف ناک حد تک جھلسا ہوا ہے، مگر وہ پھر بھی زندہ دلی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ 

اس کردار کو صوفیہ بانو نے شان دار اسلوب سے نبھایا، مگر ’’تم میرے ہو‘‘ ایک آرٹسٹک اور قابل دید فلم ہونے کے باوجود ناکام رہی۔ 1970ء میں اقبال اختر نے فلم ’’ماں تے ماں‘‘ بنائی تو صوفیہ بانو کو بہ طور سپورٹنگ فن کارہ اس میں شامل کیا۔1971ء میں رضا میر کی سوشل ڈرامامووی ’’پرائی آگ‘‘ منظر عام پر آئی۔ جس میں صوفیہ بانو، ندیم کی بہن کے روپ میں ایک اہم کردار میں جلوہ گر تھیں۔ اس فلم کی ہائی لائٹس خواجہ خورشید انور کی سحرانگیز موسیقی تھی، لیکن فلم کے دل کش نغمات و موسیقی بھی ’’پرائی آگ‘‘ کو ناکامی سے نہ بچا سکے۔ 

بانی نگار ایوارڈز الیاس رشیدی کی پروڈکشن ’’احساس‘‘ 1972میں صوفیہ بانو قوی کی بیوی اور ندیم کی ماں کے مختصر کردار میں سامنے آئیں۔ ’’احساس‘‘ نے باکس آفس پر مناسب کام یابیی حاصل کی۔ فنی اعتبار سے احساس ایک اعلیٰ معیار کی حامل قابل دید فلم تھی۔ 1973ء صوفیہ بانو کے فنی کیریئر کا سب سے کام یاب اور غیر معمولی سال تھا کہ اس سال ان کی شان دار اور معیاری کردار نگاری سے آراستہ دو بڑی ہٹ فلمیں ’’گھرانہ‘‘ اور ’’پردے میں رہنے دو‘‘ منظر عام پر آئیں۔ ’’گھرانہ‘‘ میں وہ محمد علی کی بیوی بنی تھیں، وہ بیوی جو نہایت بردبار، کم سخن اور ہرحال میں اپنے شوہر اور اپنے گھرانے کی بہتری کی خواہاں ہے۔ 

صوفیہ بانو نے اس متاثر کن رول کو بڑی عمدگی سے نبھایا، جب کہ شباب کیرانوی کی ’’پردے میں رہنے دو‘‘ اور ’’گھرانہ‘‘ کے رول کے برعکس وہ ایک ضدی مغرور، خودسر اور خود پرست، امیر زادی کے روپ میں فلم کے مرکزی کرداروں پر حاوی نظر آئیں۔ اس کردار کی عمدہ ادائیگی پر صوفیہ بانو کو بہترین ساتھی اداکارہ فن کارہ ایوارڈ برائے 1973ء سے نوازا گیا۔ اسی سال ایم اے رشید کی سرحد کی گود میں ’’کے عنوان سے منظر عام پر آنے والی فلم میں وہ ایک انگریز آفیسر کی بیٹی کے روپ میں بھی کام یاب نظر آئیں۔ 

صوفیہ بانو کے فنی کیریئر میں 1974ء کا سال اس اعتبار سے ایک الگ اہمیت کا حامل تھا کہ اس سال ان کی کردار نگاری سے سجی 5 فلمیں منظر عام پر آئیں۔ وہ فلمیں تھیں، شرافت، سچا جھوٹا، دو تصویریں قسمت اور نوکر ووہٹی دا۔ 1975ء کی دہلیز ہدایت کار رضا میر کی ’’پروفیسر‘‘ میں ان کا پیئر محمد علی کے ساتھ تھا۔1976ء میں ریلیز ہونے والی حسن طارق کی ’’ضرورت‘‘ صوفیہ بانو کی کردار نگاری سے آراستہ ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘‘ اور ’’ہلچل‘‘ ان کی ان ریلیزڈ فلمیں ہیں۔

صوفیہ بانو نے اپنے 12 برسوں پر محیط فنکارانہ کیرئیر میں کل 20 فلموں میں اداکاری کی، جن میں18 اردو ایک گجرانی اور ایک پنجابی فلم شامل ہے۔انہوں نے کراچی کی ایک سیاسی پس منظر رکھنے والی سرمایہ دار شخصیت سے شادی رچالی اور فلمی اُفق سے معدوم ہو گئیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین