یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، یاروں یہی دوستی ہے، قسمت سے جو ملی، سب سے اچھی ہے دوستی، تیری میری دوستی، تیرے جیسا یار کہاں، کہاں ایسا یارانہ، یاد کرے گی دُنیا تیرا میرا افسانہ، سلامت رہے دوستانہ ہمارا، ایسے بے شمار گیت دوستی اور یارانہ پر گائے گئے ہیں اور آج بھی انہیں دل چسپی اور پسندیدگی سے سُنا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک ایک دو نہیں، بلکہ گیارہ ہوتے ہیں۔ ایثار، قربانی، محبت، چاہت، ایک دُوسرے کی تعمیر و ترقّی میں حصّہ لینے کا جذبہ، دُکھ درد میں شریک ہونا، خُوشیوں میں جُھومنا، ایک دُوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کرنا، خوبیوں کو اُجاگر کرنا۔ یہ تمام باتیں دوستی کے سچّے رشتے کو جنم دیتی ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شوبزنس کی رنگ و نور برساتی دُنیا میں پروفیشنل جیلیسی بہت ہوتی ہے۔ فن کار ایک دُوسرے کے کام سے کم ہی خوش ہوتے ہیں، لیکن جس طرح پانچوں اُنگلیاں ایک برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح تمام فن کار بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ گائیک سجاد علی اور نامور پاپ سنگر سلیم جاوید کی مثالی دوستی کو تقریباً 35 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، لیکن ان کی پُرخلوص دوستی آج بھی قائم و دائم ہے۔
اگرچہ سماعتوں میں رس گھولنے والے سُریلے گائیک سجاد علی اب کئی برسوں سے دبئی میں فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی سلیم جاوید اور سجاد علی ایک دُوسرے کے بے حد قریب ہیں۔ یہ پل دو پل کی بات نہیں 35 برس کا قصّہ ہے۔ ہم نے فن و فن کار کے لیے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ دو دوست دو فن کار۔ آج ہم گلوکار سجاد علی اور سلیم جاوید کی35 برس کی بے مثل دوستی کے بارے میں ان دونوں عالمی شہرت یافتہ فن کاروں سے بات کریں گے۔
اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے گلوکار سجاد علی نے بتایا کہ میں 1979ء میں موسیقی کی طرف آگیا تھا۔ سلیم جاوید سے جب میری ملاقات ہوئی، تو وہ کنسرٹ میں زیادہ ملتے تھے، لیکن اس وقت وہ ٹیلی ویژن پر نہیں آئے تھے اور نہ ہی ان کا کوئی اَلبم ریلیز ہوا تھا، جب کہ مجھے ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ سے مقبولیت حاصل ہو چکی تھی۔ سلور جوبلی میں میری پہلی پرفارمنس مجھے تاحیات یاد رہے گی۔ یہ 26 نومبر 1983ء کی بات ہے۔ میں نے دو گیت ’’لاگی رے لگن یہ دل میں‘‘ اور ’’بانوری چکوری‘‘ گائے تو ان گیتوں کے چرچے ہونے لگے۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب سلیم جاوید اپنی پہچان کے لیے دن رات محنت کر رہے تھے۔ مجھے ان کی یہ اَدا بہت اچھی لگتی تھی۔ ہم دونوں میں سینئر جونیئر کا معاملہ کبھی نہیں رہا۔ ہم جب بھی محافل موسیقی میں ملتے، خلوص اور محبت سے ملتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی ایک دُوسرے کی فیملی تک پہنچ گئی۔ ہمارا ایک دُوسرے کے گھروں میں آنا جانا ہونے لگا۔ اس کی وجہ تھی، میں بھی گلشن اقبال میں رہتا تھا اور سلیم جاوید کی رہائش بھی میرے گھر کے قریب تھی۔
آہستہ آہستہ ہمارے بچّے بھی بڑے ہوتے گئے۔ وہ بھی ایک دُوسرے کو پہنچاننے لگے۔ فیملی کی بھی آپس میں دوستی ہوگئی۔ سلیم جاوید کی بیگم اور میری شریکِ حیات آپس میں گہری دوست ہیں۔ اب چوں کہ میں دبئی میں فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، اس کے باوجود ہم ایک دُوسرے کے رابطے میں رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو پرکھناہو تو اس کے ساتھ سفر کر کے دیکھ لو۔ میں نے سلیم جاوید کے ساتھ ان گنت بیرون ملک کنسرٹ کے سلسلے میں سفر کیا۔ دورانِ سفر انہیں اچھا انسان پایا۔ میں سلیم کو شروع سے دیکھتا آ رہا ہوں، موسیقی میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
میرے اور بھی فن کار دوست ہیں، مگر سلیم کی عادتیں سب سے مختلف ہیں۔ اسی وجہ سے وہ آج بھی اپنی جگہ کام یاب ہیں اور دن بہ دن ترقّی کرتے جا رہے ہیں۔ سچّے دوست وہی ہوتے ہیں، جو دوستوں کی خامیوں کو دُور کرتے ہیں۔ میں نے انہیں موسیقی کے بارے میں جب بھی کوئی مشورہ دیا، تو انہوں نے ہمیشہ اُسے اہمیت دی۔ میں انہیں موسیقی میں غیرضروری چیزوں کے لیے منع کرتا تھا۔ انہیں موسیقی پر خاص توجہ دینے کی تلقین کرتا تھا، کیوں کہ شو بزنس میں میرا تجربہ کافی تھا۔ میں نے ہر طرح کا دور دیکھا تھا۔ مجھے تاریخ پڑھنے کا شوق رہا ہے۔ اسی وجہ سے آج بھی موسیقی کے مستقبل کے بارے میں اندازے لگا لیتا ہوں۔‘‘
’’سلیم جاوید کی سب سے اچھی عادت کیا لگتی ہے؟‘‘ اس بارے میں سجاد علی نے کہا کہ اُن کی سب سے اچھی عادت ان کی سخت محنت ہے، دُوسری اچھی عادت گھر پر بھرپور توجہ دینا۔ گھرکو سجا کر خُوب صورت بنا کر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کی تربیت پر بھرپور توجہ دی ۔ آج ان کا بیٹا ’’جوجی‘‘ کینیڈا میں رہتا ہے اور خُوب صورت موسیقی کی وڈیوز بنا رہا ہے۔ ایک بیٹا لندن میں رہتا ہے۔ سلیم کی ایک عادت مجھے سب سے اچھی لگتی ہے کہ وہ شوبزنس کی شہرت اور دولت والی دُنیا میں رہ کر بھی خرافات سے دُور رہتے ہیں۔ میں نے بچوں میں دل چسپی لینا، ان سے سیکھا ہے۔‘‘
فوک گیت ’’جُگنی‘‘ سے دُنیا بھر میں دُھوم مچانے والے پاپ سنگر سلیم جاوید نے اپنے دیرینہ دوست سجاد علی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’سجاد علی سے دوستی کے 35 کب برس گزر گئے۔ معلوم ہی نہیں چلا۔ وقت کا پہیہ برق رفتاری سے گزر رہا ہے۔ سجاد علی کی دوستی پر ہمیشہ ہی سے فخر کرتا رہا ہوں۔ میں میرا سب سے پیارا اور محبتی دوست ہے، جب میں نے موسیقی کی دُنیا میں قدم رکھا تو اس وقت تک سجاد علی اسٹار بن چکے تھے، جب کہ میں اپنی شناخت بنانے کے لیے دن رات محنت کرہا رہا تھا۔ ’’سلور جوبلی‘‘ کی وجہ سے سجاد علی کو ہر کوئی پہچانتا تھا۔ اس زمانے میں لوگوں میں خلوص بہت تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری دوستی ہوگئی تھی۔ 35برس بیت گئے، جب ہماری دوستی ہوئی تھی، تو ہمارے بچّے بھی چھوٹے تھے۔ اب تو دونوں کے بچّے جوان ہوگئے ہیں۔ ہمارے بچّے ایک دُوسرے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ مجھے سجاد بھائی کی سب سے اچھی خُوبی یہ لگی کہ وہ کسی بھی فن کار سے حسد نہیں کرتے۔ انہوں نے مجھے شوبزنس کے بارے میں بہت کچھ سمجھایا اور بتایا، کس طرح کے شو میں پرفارم کرنا ہے اور کس طرح کی محافل میں پرفارم نہیں کرنا ہے۔ میں اُس زمانے میں میوزیکل شوز میں مختلف آئٹم متعارف کرواتا تھا۔
ڈیجیٹل لائٹ کا استعمال کرتا تھا، وہ مجھے کہتے تھے کہ سلیم آپ بنیادی طور پر سنگر ہو، لہٰذا ساری توجہ موسیقی پر دو۔ سُریلے گانوں کی طرف آئو۔ ان کے کہنے پر میں نے اپنا وزن نہایت کم کیا۔ سجاد علی نے مشورہ دیا کہ میرے گائے ہوئے گانے ’’تم میرے ہو‘‘ اور ’’بارش‘‘ کی مری کی دل کش لوکیشن پر وڈیوز بنائو۔ ایک دل چسپ بات بتائوں کہ سجاد علی کی حوصلہ افزائی اور بے انتہا محبت کو میں تاحیات فراموش نہیں کر سکتا۔ ان کے دوست عامر رضوی نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ سجاد بھائی تمہارا گانا ’’تم میرے ہو‘‘ گزشتہ تین ماہ سے اپنی گاڑی میں بار بار سُنتے ہیں۔ میں نے عامر رضوی سے کہا کہ بھائی ابھی تو یہ گانا ریلیز ہی نہیں ہوا۔ ان کے پاس کیسے آگیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سجاد علی نے ساؤنڈ ماسٹر کمپنی سے میرے علم میں لائے بغیر وہ گانا حاصل کر لیا تھا۔
یہ ان کا پیار تھا اور پھر وہ گانا ایسا سپرہٹ ہوا کہ آج بھی کنسرٹ میں سب سے زیادہ پرفارمنس اس گیت کی جاتی ہے۔ اسی گانے سے موسیقی کی دُنیا میں میرا شان دار کم بیک ہوا تھا۔ میں نے حیرت انگیز طور پر اپنا وزن کم کیا تھا۔ میرا وہ نیا لُک میرے مداحوں کو اچھا لگا۔ یہ سب کچھ سجاد علی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ہم نے کئی ورلڈ ٹور بھی ساتھ کیے ہیں۔ وہ بہت بہادر آرٹسٹ ہیں۔ ہم نے دُنیا کے مختلف ممالک میں ایک ساتھ پرفارم کیا۔ میری زندگی کا ایک یادگار لمحہ وہ تھا، جب سجاد علی نے میرے لیے اتنا بڑا Compliment دیا تھا کہ سب حیران رہ گئے تھے۔
ایک بہت بڑا شو تھا۔ میں نے سجاد علی سے پہلے پرفارم کیا۔ ’’جُگنی‘‘ کی وجہ سے شو میں دُھوم مچا دی تھی۔ میرے بعد سجاد علی کو آواز کا جادو جگانا تھا۔ ان کا بڑا پن دیکھیں۔ انہوں نے پرفارمنس سے قبل حاضرین کو مخاطب کرتے وقت کہا کہ سلیم جاوید زبردست پرفارمر ہیں۔ ان کے بعد کسی بھی فن کار کے لیے پرفارمنس دینا آسان نہیں رہتا، بلکہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اُن کے ان الفاظ کو میں ساری زندگی یاد رکھوں گا۔ سجاد علی واقعی بڑے فن کار اور اچھے انسان ہیں۔‘‘
’’سجاد علی کی کون کون سی عادتیں آپ کو پسند ہیں؟‘‘ سلیم جاوید کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’جیسے وہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ عام زندگی میں بہت ہنس مُکھ ہیں۔ بہت شگفتہ طبیعت کے مالک ہیں۔ شوز کے دوران بیک اسٹیج بہت ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ مجھے ان کے گائے ہوئے تقریباً سارے گانے اچھے لگتے ہیں اور میں فارغ اوقات میں پُوری دل چسپی سے سُنتا ہوں۔ ان دنوں ان کا گایا ہوا گیت ’’ہر ظلم تیرا یاد ہے بُھلا تو نہیں ہوں‘‘ بے حد پسند ہے۔ اس سے قبل چیف صاحب، سوہنی لگدی ہے، بارش اور درجنوں گیت سب ہی اچھے ہیں۔ ان کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے، جن کے گانوں کا مداحوں کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔
جیسے ہی ان کا گانا ریلیز ہوتا ہے، شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھونے لگتا ہے۔ وہ بہت خوش نصیب آرٹسٹ ہیں۔ موسیقی میں نت نئی تخلیقات سامنے لاتے رہتے ہیں۔ لیرکس پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں۔ ان دنوں ان کے ایک گانے میں فلم اسٹار ریما نے بھی ماڈلنگ کی ہے۔ سجاد علی کو 40 برس سے اپنی جگہ سے کوئی الگ نہیں کر سکا۔وہ اپنی مثال آپ ہیں۔‘‘
سجاد علی نے بھی فلم میں کام کیا اور آپ نے بھی فلم میں بہ طور اداکار کام کیا، اس بارے میں کچھ بتائیں؟ سلیم جاوید نے بتایا کہ میں بنیادی طور پر سنگر ہوں، معین اختر مرحوم کی محبت میں ایک فلم ’’مسٹر کے ٹو‘‘ میں مختصر کردار ادا کیا تھا، اس کے بعد فلم میں کام کرنے سے توبہ کر لی تھی۔‘‘
سجاد علی نے اپنے فلم میں کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ میں نے دو تین فلموں میں کام کیا۔ ایک فلم خود بھی پروڈیوس کی تھی، جس کا نام ’’ایک اور لو اسٹوری‘‘ تھا۔ میں فلم کے ذریعے گانوں کی وڈیوز بنانے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا، لہٰذا میں نے ایک فلم بہ طور ڈائریکٹر بنائی۔ اس کی کاسٹ میں میرے علاوہ نرما، سائرہ، سلیم شیخ اور بہروز سبزواری شامل تھے۔ میرے تین گانوں کے علاوہ شہزاد رائے کا گیت ’’تیرا کنگنا جب‘‘ بھی شامل تھا۔ فلم بنانے کا تجربہ کام یاب ثابت ہوا۔ لوگوں نے سینما گھروں کی جانب رُخ کیا۔
یہ 1998ء کی بات ہے۔ اب بھی اگر موسیقی کی بنیاد پر کوئی اچھی فلم بنائی گئی تو اس میں کام کرنے کے بارے میں سوچوں گا۔ ‘‘ سجاد علی کا تعلق فن کار گھرانے سے ہے۔ ان کی والدہ ریڈیو پاکستان سے منسلک رہیں، جب کہ ان کےوالد ساجن اداکار اورکرکٹر تھے۔ ان کے دو بھائی لکی علی اور وقار علی موسیقی کی دُنیا میں شان دار کام کر رہے ہیں،جب کہ سجاد علی کی بیٹی بھی لوک اسٹوڈیو کے ذریعے موسیقی کی طرف آ گئی ہیں۔
اسی طرح سلیم جاوید کے کیریئر پر ایک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا۔ 7 مارچ 1985ء کو ان کا پہلا البم ریلیز ہوا تھا۔ اس کے بعد درجنوں البم ریلیز ہوچکے ہیں بھارت کی فلموں میں بھی ان کے گانوں کو نقل کیا گیا۔ سلیم جاوید اور سجاد علی کی دوستی دُوسرے فن کاروں کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔ فن کار اگر ایک دُوسرے کو پروموٹ کریں تو انہیں کام یابی کے راستے سے کوئی الگ نہیں کر سکتا۔ سجاد علی اور سلیم جاوید نے پاکستانی موسیقی کو ایک سے بڑھ کر ایک گیت دیے ہیں اور ان کے لاکھوں مداح ہیں۔