اسلام آباد(ایجنسیاں)مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے قریبی ساتھیوں سے بات چیت کیلئے رابطے کیے ہیں،میرے ساتھ براہ راست کسی نے رابطہ نہیں کیا‘پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر غور کیا جا سکتا ہے۔
فوج میرا ادارہ ہے، ہم ضرور بات کریں گے لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔ مسلم لیگ نواز کی سیاست بند گلی کی جانب نہیں جا رہی‘ عوامی ردِ عمل کا جواب دینا اداروں کانہیں منتخب حکومت کا کام ہے‘ موجودہ حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے۔
ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہو گا، نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے‘ عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ یہ سیاسی لوگ نہیں ہیں،تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انہیں معافی دینے کے مترادف ہو گا،عمران خان کا نام بھی نہیں لینا چاہتی لیکن وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس ملک میں نہیں ہونی چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے عوام کو جواب نہیں ملے، مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں،چند جونیئر افسران کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے رابطے کیے ہیں‘پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر غور کیا جا سکتا ہے۔
فوج میرا ادارہ ہے، ہم ضرور بات کریں گے، لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئےاور وہ بات اب عوام کے سامنے ہو گی، چھپ چھپا کر نہیں ہو گی، میں ادارے کے خلاف نہیں ہوں مگر سمجھتی ہوں کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہو گا۔
مریم نوازکہا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرزسے بات کر سکتی ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حکومت کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ڈائیلاگ تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہو گا اور ہو رہا ہے، اور اتنا اچھا ہو رہا ہے کہ جعلی حکومت گھبرائی ہوئی ہے اور اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے ردعمل دینا ہے اور گھبراہٹ میں وہ اس قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز کی سیاست بند گلی کی جانب نہیں جا رہی، بند گلی کی طرف وہ لوگ جا رہے ہیں جنھوں نے یہ مصنوعی چیز بنانے کی کوشش کی، ہم تو جہاں جا رہے ہیں، چاہے وہ گوجرانوالہ ہے، کراچی ہے، کوئٹہ ہے یا گلگت بلتستان ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے اور وہ ہے ووٹ کو عزت دو اور ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ۔اب یہی راستہ ہے اور یہ راستہ آئین و قانون کی بالادستی کی جانب جا رہا ہے۔
اس بات پر کہ بلاول بھٹو کی جانب سے کہی گئی ہے کہ وہ نواز شریف کی جانب سے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ثبوت سامنے لانے کے منتظر ہیں مریم نواز کا کہنا تھا کہ میاں صاحب نے بات بعد میں کی ہے اور ثبوت خود عوام کے سامنے آئے ہیں، شوکت عزیز صدیقی، جج ارشد ملک اور ڈان لیکس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے ۔
پیپلز پارٹی کا ایک اپنا موقف ہے، مسلم لیگ ن کا اپنا موقف ہے جو میاں صاحب نے واضح کر دیا ہے۔کراچی واقعے پر فوج کی کورٹ آف انکوائری سے متعلق انہوں نے کہا کہ آپ قوم کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ جذباتی افسران نے عوامی دبا کا ردِعمل دیتے ہوئے یہ کیا۔ کون سا عوامی ردِ عمل تھا، وہ جعلی لوگ جنھوں نے مقدمہ درج کروایا اور پھر مدعی ہی بھاگ گیا، ان تین چار لوگوں کے دبا ئوکو آپ عوامی دبائو کہتے ہیں۔
اداروں کا کام اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھانا ہے ناکہ جذبات دکھانا۔ اور اگر واقعی کسی نے یہ جذبات میں آ کر کیا ہے تو یہ تو ادارے کے لیے اور پاکستان کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسا نہیں ہوا، چند جونیئر افسران کو قربانی کا بکرہ بنا دیا گیا‘ یہ غلط بات ہے۔
ان ہائوس تبدیلی یا مائنس عمران خان فارمولے کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان دیکھا جائے گا میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گی لیکن جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ʼمیری نظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ اس لیے نہیں ہیں کیونکہ میں انھیں سیاسی لوگ نہیں سمجھتی۔
میرا اور میری جماعت کا مقابلہ اس سوچ کے ساتھ ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا پاکستان سے خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔میری نظر میں اب ان کے احتساب کا وقت ہے، ان کے ساتھ الحاق کا وقت نہیں ہے۔ یہ ان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا وقت نہیں۔ اب جبکہ وہ کمزور ہو گئے ہیں تاہم باقی جماعتوں کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنی تقریروں میں اپنی، نواز شریف کی بات زیادہ کرتی ہیں مگر عوامی مسائل کی کم۔ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں مجھے نواز شریف کے حامی دکھائی دیتے ہیں، اور اگر میں انھیں وہ نہیں سنائوں گی جو وہ سننے آئیں ہیں، جو پاکستان سننا چاہتا ہے، تو میں اور کیا بات کروں۔
جب ہم دیکھتے ہیں آٹا، چینی، گیس، بجلی مہنگی ہونے کی بات کرتی ہوں تو اور کس کا نام لوں اگر عمران خان کا نام نہ لوں۔ اور سب سے بڑا عوامی مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ووٹ چوری کیا گیا ہے۔
یہ خود ہی چیزیں مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں اور پھر مہنگائی کر کے وہ واپس مارکیٹ میں لے آتے ہیں، یہ نوٹس لیتے ہیں اور چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں‘معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں بہتر نہیں ہو سکتی، یہ حال ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے ووٹ چوری کریں۔