• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انس انوار

"طلال ! طلال ! بیٹا ! میری بات سنو، اب تو کمپیوٹر سے ہٹ جاؤ". "جی مما ابھی ہٹتا ہوں". فائزہ طلال سے کہہ کر ابھی ہٹی ہی تھی کہ اسے دوسرے کمرے میں عائزہ بھی لیپ ٹاپ پرمصروف نظر آئی۔ "بیٹا ! کیا مسئلہ ہے جب بھی آپ لوگوں کو دیکھو کمپیوٹر، موبائل، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ لے کر بیٹھے ہوتے ہو۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ لوگوں کو کیسے سمجھاؤں"؟ فائزہ بچوں کی ن سرگرمیوںسے بہت پریشان تھی ۔ چھوٹا مدثر بھی جب دیکھو ٹی وی پر کارٹون دیکھتا ہے یا موبائل پر گیم کھیلتا رہتا ۔ صرف اسکول اور ٹیوشن کےاوقات میں ہی گیم سے جان چھوٹتی.۔ کووڈ۔19اور لاک ڈاؤن کی وجہ سےتعلیمی نظام کے موبائل اور کمپیوٹر پر منتقل ہونے کے بعد والدین کے لیے پریشانیاں مزید بڑھ گئیں۔ 

آج فائزہ کی دوست سارہ گھر پر آئی تو وہ بھی اپنا یہی دکھڑا سنانے لگی۔اب یہ ہر گھر کا مسئلہ بن گیا ہے۔ پہلے بچے آؤٹ ڈور گیمز کھیلتےتھے جن سے ذہنی و جسمانی صحت اچھی رہتی تھی ۔ لیکن اب انٹر نیٹ نے سارا نظام برباد کرکے رکھ دیاہے۔ ہر وقت موبائل اور کمپیوٹر پر لگے رہنے سےبچے کی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ اب تو کچھ گیمز ایسے آگئے ہیںجن سے بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر خودکشی کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک بچے نے PUBGکی وجہ سے خودکشی کر لی ۔ آج مائیں انہیں ان خرافات روک سکتی ہیں ۔

اپنے بچوں کو موبائل کے منفی استعمال سے بچانے کے لیے رات کو سوتے وقت اصلاحی کہانیاں، اوراسلامی کتابوں میں سے اچھی باتیں ضرور بتائیں ، تاکہ وہ اچھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوں۔یہ بات درست ہے کہ گھر کے کام کاج کی وجہ سے مائیں بہت مصروف رہتی ہیں، اور بچوں کو دینے کے لیےان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔لیکن انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ ان کی توجہ تعلیمی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں اور انہیں ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ سے نجات دلائیں۔

تازہ ترین