• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں چلنے والی اکثر احتجاجی تحریکوں نے سیاسی تاریخ پر اَن مٹ نقوش ثبت کئے ہیں، تاہم مرور ایام کے ساتھ جہاں تحریکوں میں وہ روایتی ردھم، جوش و ولولہ ناپید ہوتا گیا وہیں زیادہ تر جماعتوں نے تحریک کے خاتمے پر اپنے اُن مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا جن کیلئے وہ عوام کو سڑکوں پر لائی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ ایک سیاسی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں جب مارشل لا لگا یا ایک ڈکٹیٹر کے زیر سایہ حکومت بنی تو اُنہی میں سے بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں اُس حکومت کا حصہ بن گئیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی بھی اُن جماعتوں میں شامل ہے، جبکہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے دھڑے دیگر ناموں سے حصہ بنے اور پھر وہ اِبن الوقت عناصر جنہوں نے آمر کا ساتھ دیا، جب بعد ازاں پھر اپنی جماعتوں میں آئے تو اُن کو پہلے سے بھی زیادہ نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ضمیر فروش پارلیمانی سیاست کیلئے ناگزیر بنتے گئے اور عام معنوں میں معروف ’’لوٹے‘‘ الیکٹ ایبلز کہلائے جانے لگے۔ اپنی ناگزیریت کا احساس رکھتے ہوئے ایسے عناصر پھر اگر اپنی جماعتوں میں بھی رہے تو بھی اِس گھنائونے کھیل سے باز نہ آئے، وہ جانتے ہیں کہ مروجہ سیاست میں وہ جنسِ ارزاں نہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور پھر اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے دوران ہارس ٹریڈنگ کا شرمناک مظاہرہ تو ابھی حال ہی کا واقعہ ہے۔ اب ہم جب مستقبل کے حوالے سے پی ڈی ایم کے حالیہ میثاق پر نظر ڈالتے ہیں تو اِس میں تمام نکات گھسے پٹے ہیں اور اُن پر عمل کیلئے کسی میکانزم کے نہ ہونے سے اُن کا حشر بھی میثاقِ جمہوریت جیسا ہونے کے امکان کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پی ڈی ایم کے 12؍نکات میں جو مشمولات ہیں اُن تمام کو محض دو نکات میں سمویا جا سکتا ہے۔ اول، جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرنا۔ دوئم، آئین پر من و عن عمل کرنا۔ پارلیمنٹ کی خودمختاری سے لیکر اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے تک تمام نکات پر اُس وقت ہی عمل درآمد ممکن ہے جب جمہوریت کو اُسکی روح کے مطابق نافذ کرتے ہوئے آئین کو راہ نما بنا لیا جائے۔ لہٰذا ہم اپنی محدود فکر و نظر کے تناظر میں سمجھتے ہیں کہ میثاق ساز بڑے نام تاحال جوہر یا جرأت کے حوالے سے قلاش ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جمہوریت کو رسہ گیروں سے واگزار کرانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ، اسٹریٹ پاور کے استعمال کے غلط رحجان اور ترقیاتی فنڈز کو ذاتی، گروہی و جماعتی مفاد کیلئے استعمال کرنے کی قبیح روایت کے سدِباب کیلئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے، نیز آئین کی پاسداری کیلئے پی ڈی ایم ایک ایسے میکانزم پر متفق ہو جائے جس سے انحراف ممکن نہ رہے۔ ہنوز اِس سلسلے میں وژن اور ارادوں کا عکس نظر نہیں آتا۔ رواں تحریک میں بھی بالخصوص دو بڑی جماعتوں کی جانب سے ظاہر کے ماسوا عملی اعتبار سے یہ یقین ناپید ہے کہ مستقبل میں یہ جماعتیں حسبِ روایت موقع پرست ثابت نہیں ہوں گی۔ مزید براں اِن دونوں بڑی جماعتوں نے جو ایک دوسرے کیخلاف ریفرنسز بنائے تھے، کیا وہ غلط تھے یا اُنہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا؟ اِس کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں۔ کیا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ ملکی خزانے کو کسی نے لوٹا ہی نہیں ہے اور ملک اگر کنگال اور عوام بدحال ہیں تو اس کا سبب سیاستدان، آمر، بیوروکرٹیس و دیگر عناصرکی بجائے ’جن‘ ہیں جو ظاہر ہے نظر نہیں آتے، اِس لئے اُن پر ’فردِ جرم‘ کیسے عائد کی جاسکتی ہے؟ یہ یاد رہے کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ عوام دو واضح نظریات میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک طرف میاں نواز شریف اور اُن کے ہمنوا ہیں اور دوسری طرف مخالفین۔ یوں تو میاں صاحب جو عَلم بلند کئے ہوئے ہیں، یہ وہ عَلم ہے جو ایک عرصے سے ترقی پسند، قوم پرست و جمہوریت نواز تھامے ہوئے ہیں، تاہم اُسے پذیرائی پہلی مرتبہ اِس لئے ملی ہے کہ یہ پرچم بڑے صوبے کے ایک لیڈر نے بلند کیا ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ملک اب ایسی سمت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے جس کی منزل حقیقی جمہوریت ہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح اَن گنت ممالک جمہوری بندوبست کے با وصف آج ترقی کے اوج ثریا پر ہیں۔ مسلم لیگ کی موجودہ مقبولیت سے ایسا لگتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں انتخابات ہوتے ہیں تو الیکٹ ایبلز اپنی اہمیت آپ کھو دیں گے۔ تاریخِ عالم یہ ہے کہ ایسی تحریک جس کی اُٹھان کسی نظریے پر ہو، کامیابی کی صورت میں شخصیات پر نظریہ حاوی ہو جاتا ہے اور روایتی و عہد کہن کے تمام نشان عوامی سیلاب کے سامنے اپنی قوت کھو دیتے ہیں۔ شومئی قسمت اِس تاریخی حقیقت کے باوجود پی ڈی ایم کا میثاق روایتی ہے، انقلابی نہیں۔ اِس سے اِس تاثر کو تقویت مل سکتی ہے کہ مسلم لیگ سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں نظام کے بجائے محض اقتدار کیلئے عوامی طاقت کو بروئے کار لا رہی ہیں۔

تازہ ترین