پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی یہ وہ سلوگن ہے جو کہ محکمہ پولیس کے ماتھے کا جھومر اورمعاشرے کے ظلم و جبر سے ستائے ہوئے مظلوموں کو احساس تحفظ دلاتا اور انہیں پولیس کے ادارے کے محفوظ حصار میں ہونے کا یقین دلاتا ہے بلاشبہ ہر ادارے کی طرح پولیس میں بھی ایسے جاں فروش پائے جاتے ہیں جوکہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور سروں کا نذرانہ پیش کرکے معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقے کو ظالم کے ظلم سے بچاتے ہیں بلکہ انہیں محفوظ بھی کرتے ہیں۔
محکمہ پولیس کی بنیاد خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رکھی اور اس فورس کے قیام کا بنیادی مقصد ہی عوام کی خدمت کا فریضہ انجام دینا ہے اور بانئ محکمہ پولیس حضرت عمر فاروق کا مشہور قول یہ بھی ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے تو قیامت کے روز مجھ سے پوچھ گچھ ہوگی اور اسی احساس ذمہ داری نے محکمہ پولیس کو فوج کے بعد مہیز اور ممتاز کیا ہے تاہم اس ادارے کے بہادر اور فرض شناس افسران کے علاوہ ایسی کالی بھیڑیں بھی اس محکمہ میں عود کر ائی ہیں جن کی وجہ سے محکمہ پولیس جرائم پیشہ افراد کے لئے خوف و دہشت کی علامت بننے کی بجائے جرائم پیشہ افراد کے چھپنے کی جگہ بنتی نظر آرہی ہے اور اب تو سندھ کے تمام اضلاع سے اس طرح کی آوازیں اٹھتی سنائی دینے لگی ہیں کہ محکمہ پولیس کو مال بنانے کا ذریعہ بننے والے برسوں سے ایک ہی ضلع میں تعینات پولیس افسران نے اپنی نجی جیلیں اور عقو بت خانے قائم کرلئے ہیں اور جعلی پولیس مقابلوں میں بعض اوقات ہاف اور فل فرائی کرنے کی خبریں گردش کرتیں اور پھر وقت کی گردش میں گرد پڑنے سے معدوم ہوجاتی ہیں۔
ایک تجربہ اس سلسلے میں یہ بھی ہوا کہ پولیس مقابلوں میں عمومأ ایک ہی طرح کی کہانی گھڑی جاتی ہے کہ واردات کے ارادے سے کھڑے تین ملزمان کی پولیس سے مڈبھیڑ ہوگئی اور فائرنگ کے تبادلہ کے بعد ایک ملزم زخمی جبکہ اس کے دو ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کرفرار ہونے میں کامیاب جبکہ اکثر ان پولیس مقابلوں کی حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ بعض پولیس افسران ایکدوسرے ضلع کے افسران کو تحفہ کے طور پر حقیقی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے مجرموں کا بھی ایک دوسرے سے تبادلہ کرکے انہیں مبینہ طور پر ہاف اور فل فرائی کرکے ترقی کے زینے کو پھلانگتے ہوئے آخری سیڑھی تک پہنچ جاتے ہیں ۔
یوں تو عدالتیں ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہیں جن میں پولیس کے خلاف جعلی مقابلوں میں ہلاک وزخمی افراد کے لواحقین اور رشتہ داروں نے دعوے داخل کئے ہوئے ہیں جن کی اکثریت میں دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس نے جھوٹے اور جعلی مقابلے میں ان کے بیٹے بھتیجے یا رشتہ دار کو قتل یا زخمی کرکے عمر بھر کے لئے معذور کردیا ہے اور اس کے عیوض پولیس اہلکاروں نے نہ صرف ترقیاں بلکہ بھاری انعام و اکرام بھی پا لیا ہے۔
جبکہ محکمے کے ان اعلی عہدوں پر فائز افسران اور ان کی سیاسی طور پر پشت پناہی اور اثر رسوخ رکھنے والے عناصر انہیں انکوائری جو کہ شاذونادر ہو پاتی ہے صاف بچالیے جاتے ہیں جبکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عدلیہ میں پولیس افسران کے جھوٹے اور جعلی مقابلوں میں سزا یافتہ پولیس اہلکار محکمہ جاتی انکوائری می سرخرو ہوکر برسوں اپنے عہدے پر برقرار اور باعزت طور پر ریٹائر ہوجاتے ہیں تاہم ایسا بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ پولیس کے بعض فرض شناس افسران کی درست تفتیش سے مظلوم پر ظلم کے مرتکب پولیس اہلکار اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں
ایس ایس پی ضلع شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو کے سامنے بھی مبینہ پولیس مقابلے کا مقدمہ امتحان بن کر کھڑا تھا جس میں پولیس کی جانب سے دو افراد کو ہندو تاجر گلاب رائے کے اغواء کا مرتکب قرار دیکر پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا تھا اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے اس پولیس مقابلے کی تفتیش انہیں دی گئی تھی ان کا کہنا تھا کہ پیرو مل تھانے کی حدود میں پولیس نے مقابلہ دکھا کر دونوجوانوں کو قتل کیا تھا جبکہ یہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بائیس صفحات پر مشتمل تفتیشی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ دو تھانوں کی پولیس نے جعلی مقابلے میں دو نوجوانوں علی حیدر رونجھو اور سومار مہر کو ہلاک کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق سولہ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ٹیم نے جس کے ماسٹر مائینڈ انسپکٹر علی عباسی ،انسپیکٹر ذوالفقار پائی،انسپکٹر گلزار مری ,انسپکٹر شریف جمالی ،انسپکٹر اسحاق سنگراسی ،انسپکٹر راج کمار کھتری ،اے ایس آئی شیر محمد ،اللہ رکھیو ،ہیڈ کانسٹیبل جمال دین ۔سجاد علی ،اظہار علی ،محمد سومار ،خان محمد ،غلام رضا ،محمد حیات اور ہیڈ کانسٹیبل گل محمد شامل تھے نے اس جعلی مقابلے کی منصوبہ بندی کی اور اس میں ان دونوں بے گناہوں کو ملوث دکھایاگیا اور اس طرح انہیں مقابلے میں مار دیا گیا۔
جبکہ مغوی ہندو تاجر گلاب رائے کو اس پولیس پارٹی نے بازیاب دکھا کر خوب داد سمیٹی بلکہ ایس ایس پی ذیشان شفیق نے پریس کانفرس میں دعوی کیا تھا کہ علی حیدر رونجھو اور سومار مہر تاجر گلاب رائے کے اغواء میں ملوث تھے جنہیں پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تاہم اس رپورٹ سے پہلے ایس ایس پی ذیشان شفیق کا تبادلہ کردیا گیا دوسری جانب رپورٹ آنے کے بعد اس فرضی مقابلے میں شریک سولہ پولیس اہلکاروں کی ملازمت ختم کردی گئی تاہم ایس ایس پی ذیشان شفیق جنہوں نے دونوں نوجوانوں کو ڈاکو بناکر میڈیا کے سامنے اپنی کارکردگی کے ڈھول پیٹے جس پر ہندو برادری نے گلاب رائے کی بازیابی ہر جشن اور ایس ایس پی پر نوٹ نچھاور کئے انکوائری آفیسر ایس ایس پی تنویر تنیو کی تفتیش سے فراڈ ثابت ہوئی ۔
تاہم یہ سوال اہم ہے کہ سندھ میں پولیس کی امن وامان کے قیام کے نام پر فرضی پولیس مقابلوں کا سلسلہ اب بھی جاری اور گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہ بھی اس آگ کاایندھن بن رہے ہیں اس لئے وزیر اعلی کے ساتھ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ گھمائیں جہاں ان کے محکمے کی کئی کالی بھیڑیں جو کہ برسوں سے سیاسی پارٹیوں کے بااثر افراد کے ذاتی ملازمین بن کر صوبے کے مظلوم اور بے کس عوام پر ظلم وستم کا پہاڑ توڑ رہے اور محکمہ پولیس پر سے عوام کا اعتماد ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔