• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر : سفیان وحید صدیقی۔کراچی
اُمتِ مسلمہ یہ نہیں جانتی کے ایران سے اسرائیلی دشمنی اب UAE پر اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ اُدھر فلسطین پر اسرائیلی صہیونی قوت نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے تو اِدھر انڈین ہندوئوں نے مقبوضہ کشمیر پر ہماری مساجد اور امام بارگاہوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں اور دونوں ہی قابض قوت جبر کے ذریعے مظلوم مسلمانوں کی سر زمین پر اقوام متحدہ کے منظور کردا قرارداروں کے خلاف جاکراب مجرم بن چکے ہیں جو فیصلے 1947میں اقوام متحدہ کی قراداروں کی شکل میں منظور کئے گئے تھے وہ ہی قابل عمل ہوو گے البتہ اب جب کہ دونوں ہی قابض قوتوں نے چوتھے جنیوا کنوینشن کی سنگین خلاف ورزی کی اور متنازع خطوں کے محل وقوق کو ہی نہ صرف کے تبدیل کیا بلکہ آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا دیا ایسے میں اقوام متحدہ پر اب یہ لازم ہوگیا ہے کے وہ مقبوضہ علاقوں پر سے پہلے اسرائیلی اور انڈین جابر قوتوں کا انخلاء کروائیں۔ مظلوم فلسطینی اور مقبوضہ کشمیر کے انسان یہ اُمید رکھتے ہیں کے UN ہمیشہ سے اُن کے ساتھ ہے اور ظالم قوتوں کو اُن کی سر زمین سے بے دخل کرکے اُن کو اُن کا جائز حق دلواکر رہیں گے ایسے میں نہ تو اب کوئی OSLO Accord اور نہ ہی کسی شملہ معاہدے ہی کوئی حییثت باقی رہ گئی ہے ۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پہلے دن سے ہی عالمی مسائل ہیں اور حل کے لئے بھی عالمی سطح پر فیصلے کئے جائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ مظالم پر ستائے مظلوم عوام سراپا احتجاج کا راستہ ترک کر کے خود ساختہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں ، یہ بڑا حیران کُن موقع ہے جو لوگ دنیا کے فیصلوں پر دنیا کی ہی تجویز پر مسائل کو حل کرنے پر زور دیا کرتے آرہے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اب یہ آکر اُن کو محسوس ہوا کے جو فیصلے دین کی راہ پر چل کر کئے جائیں وہ بہتر ہوگا سو اپنے بیان پر اب وہ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ BalfourAgreement کی پابند ہیں تاہم میں آج اُن کو یہ یاد دلا دیا چاہتا ہوں کہ Balfour Agreement سے قبل اُن کے اجداد نے بھی ایک معاہدہ کیا تھا اورآگرہم مذید بتانے پر آئیں تب بات دور تک نکل جائیگی فی الحال ابھی اتنا ہی کہ اُس وقت حضرت عمرؓ نے جو اعلانِ عام کیا تھا وہ ہی امن کا راستہ تھا اور یہ لگتا ہے کے UN کے اُس فیصلے کے کسی حد تک قریب ہے لیکن بہترین فیصلہ تب ہی سامنے آئے گا جب فلسطینی عوام اُس کو دل سے قبول کریں ۔ہمیں یادہے جب پاپ کا مکمل کنٹرول ہوا کرتا تھا تب سود حرام تھا بعد جو کچھ نقصان ہوا تب سب سے زیادہ اِس کا شکار بھی یہ خُود ہی بنے جو اپنے آپ معاہدات کرتے پھیر رہے تھے ۔ اب یہ جو کھیل عالمی سطح کا سجھ سا گیا ہے جہاں جنگی جنون سے بھرے اسرائیلی صہیونی تھنک ٹینک جس انداز سے UAE میں داخل ہوئے ہیں اور اِدھر انڈین ہندوں کو مداخلت پر کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے معلوم ہوتا ہے کے شطرنج کا عالمی میدان سج سا گیا اب جب کہ یہ کھیل عالمی ہے تب فتح کا طریقہ کار بھی عالمی اصولوں پر چل کر حاصل کیا جائے گا جہاں بہادر وزیر بادشاہ کی حمایت حاصل کرلینے پر فیلڈ کمانڈرز کے ہمراہ دشمن میدان پر گھس کر یہی تو وہ طریقہ کار ہے جس کی سمجھ اب بھی نہ آئی تو سب بکھر کے رہ جائے گا، ہمیں UAE مجبوریوں کا علم ہے اور یہ اندازہ بھی ہے کےگھات لگائے اسرائیلی صہیونی قوت سمندری اہم مقامات پر دراصل اپنے دوست انڈین ہندوئوں کی مدد کو UAE پرآپہنچے ہیں جس زمینی اور سمندری جنگ کی پیشن گویاں کی جارہی تھی یہ اُس کے آغاز کا وقت توہے۔ لیکن یہ سجمھ اُن جنگی جنون رکھنے والی قوتوں کو بھی نہیں آرہی ہے کہ دونوں مسائل عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کی قراردار کے مطابق ایک پارٹیشن پلان پر دیا جاچکا ہے جبکہ دوسرے مسئلہ کا حل عوامی اُمنگو کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اختیا راُن کو دیا گیا ہے جو وہاں 1947سے قبل آباد تھے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں جیسا کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی فتح پر ہوا تھا، آئے دن کے انڈین ہندو حکمراں کی جانب سے سرحدی کشیدکی بڑھانے کے ہت کنڈوں پر انشاء اللہ مقبوضہ کشمیر پر فیصلہ کُن جنگ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر کی پوزیشن پر جاکر مسلمانوں کی فتح استصواب رائے کی شکل میں سامنے آئیگی۔ کیونکہ مسلم اُمہ کبھی بھی مسلئے کا حل جنگ کو نہیں سمجھتے ہیں لیکن آگر مسلمانوں پر جنگ مسلط کی گئی تب منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جو قوم فتح مکہ کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں اُنکی مدد پروردگار عالم کے یہاں سے ہی ہوتی ہے جب فتح آپکا مقدر بنادیا جاتا ہے ۔یہ وہ ایمان والے ہیں جو کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کیا کرتے ہیں جن کا کامل ایمان یہ ہے کے اللہ واحد ہے نہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا کوئی اُس کا ہمسر نہیں اور یہ کے حضرت محمد مصطفے ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور یہ بخوبی علم اُن کو بھی جو حضرت موسیؑ صہیفوں کو تلاش کرتے پھر رہیں تب اصل دشمن کی تلاش پر اللہ واحد کی بنیاد بنا کر دنیا امن کا گہوارہ بنائی جاسکتی ہے ۔ امن ہی دنیا کا واحد فلسفہ ہے جو انسان کی خدمات پر انسانی تاریخ رقم کرسکتی ہے۔
تازہ ترین