ملتان میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسہ ٔعام کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پاور شو کا خطرہ پنجاب حکومت کی طرف سے عدالتی حکم پر ضلعی انتظامیہ کو جلسہ گاہ کے اطراف اور شہر کے داخلی راستوں پر کھڑے کنٹینر ہٹا دینے اور پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو ریلیوں کی شکل میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی ہدایت پر خوش اسلوبی سے ٹل گیا ہے جو دو روز سے جاری سیاسی کشیدگی کی انتہا اور تصادم کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا تھا۔ گوجرانوالہ، کوئٹہ اور پشاور کے بعد پی ڈی ایم کا یہ چوتھا جلسہ تھا جو ملتان میں منعقد ہورہا تھا۔ حکومت نے کورونا وائرس کی عالمی وباء کی دوسری لہر کے پیش نظر جو ملک میں تیزی سے زور پکڑ رہی ہے، یہ مؤقف اپنایا تھا کہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے یہ جلسہ نہیں ہونا چاہئے۔ اُس نے نہ صرف قاسم باغ اسٹیڈیم کی جلسہ گاہ کے داخلی و خارجی راستے بلکہ وہ تمام سڑکیں اور شاہراہیں بھی کنٹینر کھڑے کرکے بند کردیں جن سے دوسرے شہروں سے آنے والے قافلوں کو گزرنا تھا، اِس کے علاوہ اپوزیشن کے درجنوں کارکن گرفتار اور سینکڑوں کے خلاف مقدمات درج کر لئے۔ ملتان کے علاوہ صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی چھاپے مارکر لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا لیکن حکومتی ہدایات کے بعد پولیس نے خاموشی اختیار کرلی۔ جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی (ف)اور دوسری پارٹیوں کے کارکنوں نے کنٹینر خود ہٹادئیے اور دوسری رکاوٹیں بھی توڑ ڈالیں۔ پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے حکومتی اقدامات کے جواب میں کارکنوں کو ڈنڈے کا مقابلہ ڈنڈے سے کرنے کی اجازت دیدی تھی اور طاقت اور تشدد سے جلسہ روکنے کی صورت میں ’’جیل بھرو‘‘ تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تادم تحریر یہ واضح نہیں ہورہا کہ جلسہ قاسم باغ اسٹیڈیم ہی میں ہوگا یا کسی اور جگہ لیکن تمام قافلوں کا رُخ قاسم باغ کی طرف ہی ہے۔ اس میں شرکت کے لئے مریم نواز‘ آصفہ بھٹو اور دوسرے تمام لیڈر ملتان پہنچ چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن دو روز پہلے ملتان پہنچ گئے تھے۔ اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ جلسہ کئے بغیر ہم ملتان سے کہیں نہیں جائیں گے۔ چاہے کتنے ہی دن کیوں نہ لگ جائیں۔ کورونا کی ہلاکت خیز وباء بلاشبہ ایک سنگین معاملہ ہے اوردنیا میں تقریباً پندرہ لاکھ انسانی جانیں لے چکی ہے۔ پاکستان میں اِس وقت کورونا کے مثبت کیسز کی شرح ساڑھے آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 70فیصد کیسز کراچی، حیدر آباد، لاہور، پشاور اور پنڈی میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ روزانہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اِس لئے اِس سے بچائو کی تمام تر حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جن میں جلسوں اور اجتماعات سے دوری بھی شامل ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ پاکستان میں ضروری نہیں ان کی تقلید کی جائے مگر افہام و تفہیم سے معاملات کا حل بھی نکالنا چاہئے۔ سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کی موجودہ فضاء کے منفی اثرات سیاست پر ہی نہیں‘ ملک کی معیشت اور معاشرت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ جامع قومی ڈائیلاگ کی راہ اختیار کی جائے اور اصلاحات اور قانون سازی کے ذریعے اختلافی اُمور طے کئے جائیں۔ پی ڈی ایم کے ابھی مزید جلسے ہونے ہیں۔ اُن میں شریک ہونے والے لوگوں کو حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کی پابندی تو قابلِ فہم ہے مگر زبردستی شریک ہونے سے روکنا تصادم اور محاذ آرائی کو جنم دے گا جو کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ملک اس وقت اندرونی اور بیرونی کئی دوسرے مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے میں داخلی انتشار اور محاذ آرائی ملک کے مفاد میں نہیں۔ قومی قیادت کو اس کا ادراک ہونا چاہئے۔