ناروے میں سفارتخانۂ پاکستان کے زیراہتمام منعقد کیے گئے ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘ اور ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ‘ اسکیم پر ویبینار میں پاکستانی سفراء، اسٹیٹ بینک حکام اور اوورسیزپاکستانیوں نے شرکت کی۔
منگل کے روز منعقد ہونے والے اس آن لائن سیمینار میں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں تعینات پاکستان کے سفراء، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعلیٰ حکام اور اوورسیزپاکستانیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے دس ستمبر کو ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ‘ اسکیم کا افتتاح کیا گیا تھا جس کا مقصد بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں اور اپنے ضروریات کے مطابق آن لائن بینکنگ کو استعمال کرسکیں۔
ویبینار سے کے دوران نظامت کے فرائض ناروے میں پاکستان کے سفیر ظہیر پرویز خان نے انجام دیئے۔
سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے بتایا کہ جس طرح ایک عام بینک اکاؤنٹ کی سہولیات اور خدمات ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ بھی صارفین کو وہ سہولیات فراہم کرے گا، فرق صرف یہ ہے کہ ای بینک کی یہ نئی سکیم صرف اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ہے، وہ باآسانی اپنا بل دے سکتے ہیں اور کسی کو آن لائن پیسے ٹرانسفر کرسکتے ہیں، اِس آن لائن اکاؤنٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
وہ اس اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستانی اسٹاک مارکیٹ، پراپرٹی کی خریدی اور بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق اکاؤنٹ اڑتالیس گھنٹوں میں کھولا جاسکتا ہے، اس سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے۔
انہوں نے بتایاکہ آٹھ پاکستانی کمرشل بنکوں میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھولا جاسکتا ہے۔
مرتضیٰ سید نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس سکیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک قسم کا حکومتی بانڈ ہے جس کے تحت تین ماہ سے پانچ سال کے لیے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔
ڈالرز پر سات فیصد اور پاکستانی روپے پر گیارہ فیصد تک منافع ہوگا، ان سکیموں کے تحت روزانہ دو سے چار ملین ڈالرز پاکستان آرہے ہیں اور ہم اس رحجان کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ان سکیموں میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں بلکہ سٹیٹ بنک کے زیرنگرانی چلائی جارہی ہیں اور ان سکیموں کو چلانے میں تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل افراد شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں تجارتی خسارہ ختم ہوگیا ہے اور اب صورتحال سرپلس میں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پچھلے ڈیڑہ سال میں سات ارب ڈالرز سے تیرہ ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ حکومت پاکستان نے کرونا وائرس کی پہلی لہر پر قابو پایا جس سے ملک کی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا اور امید ہے کہ دوسری لہر پر بھی قابو پالیا جائے گا۔
ویبینار کے دوران سٹیٹ بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن آف پاکستان سید عرفان علی نے بتایا کہ روشن ڈیجیٹل پاکستان اکاؤنٹس کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کسی مشکل کے بغیر نہ صرف ترسیلات زر کی فراہمی ہے بلکہ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے۔
بقول ان کے ، اب تک پچاس ہزار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ’روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘ کھلوا لیے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر بے شمار لوگ نئے اکاؤنٹس کھول رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے تحت چوبیس گھنٹے سروس موجود رہے گی اور متعلقہ بنک روزانہ کی بنیاد پر سٹیٹ بنک کو رپورٹ دیں گے، اس کے علاوہ، سٹیٹ بنک کے لینکس تمام سوشل میڈیا سائٹس پر میسر ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کے ایک اور اعلیٰ عہدیدار ذوالفقار علی کھوکھر نے بتایاکہ بینکوں کے ذریعے بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل آسان بنادی گئی ہے، بقول ان کے، سالانہ بیس سے پچیس ارب ڈالرز کی رقوم بیرون ممالک پاکستانی پاکستان بھیجتے ہیں اور ان نئی سکیموں سے اس ترسیل میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے متعارف ہونے سے بیرون ممالک سے پاکستان رقوم کی ترسیل بہت ہی آسان ہوگئی ہے۔ اسٹیٹ بینک سروے کر رہا ہے تاکہ ان سکیموں میں مزید آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔
سویڈن میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر ظہوراحمد نے ویبینار کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف کورونا وائرس سے نقصان ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف آن لائن سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، نیز یہ کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور نیا پاکستان سرٹیفیکٹس مفید سکیمیں ثابت ہوں گی۔
فیصل بینک کے اعلیٰ عہدیدار طاہربھٹی نے کہا کہ اوورسیزپاکستانیوں کو روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس اسکیموں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ڈنمارک میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایاکہ ڈنمارک میں پنتیس ہزار پاکستانی مقیم ہیں اور گذشتہ چالیس پچاس کے دوران ان پاکستانیوں نے ہرشعبے میں ترقی کی ہے۔
اس ویبنار کے دوران جن اوورسیزپاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس سکیموں کے بارے میں سوالات کئے ان میں علامہ سید نعمت علی شاہ، علامہ ڈٓاکٹرحامد فاروق، چوہدری جہانگیرنواز، سید اشعر حسنین عاشی، افضل انصاری، ڈاکٹر فرحت تاج، اریباخان، حنا سہیل ملک، علینا دورانی اور مہرین احمد قابل ذکر ہیں۔
ادھر ناروے میں مقیم بہت سے پاکستانیوں نے حکومت پاکستان کی طرف سے سرمایہ کاری کی ان سکیموں کی تعریف کی ہے جبکہ بعض نے پاکستان میں اوورسیزپاکستانیوں کو درپیش بعض مسائل کے حوالے سے اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے ہیں۔
متحرک نارویجن پاکستانی شخصیت ملک محمد پرویزمہر کاکہنا ہے کہ اگرچہ یہ بہت ہی اچھی اسکیمیں ہیں اور اس سے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے لیکن حکومت کو اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے تحفظات بھی دور کرنے چاہیے۔
بقول ان کے، حکومت کو چاہیے کہ ایسا میکانیزم بنائے تاکہ ان سکیموں کا حشر پچھلی حکومتوں کی سکیموں کی طرح نہ ہو، جیسے قرض اتارو، ملک سنوارو کے ساتھ ہوا۔
انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ اس سے پہلے موجودہ حکومت نے ڈیم کی تعمیر کی اسکیم کے تحت جو فنڈز جمع کیے ان کوششوں کے اچھے ثمرات برآمد ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ناروے اور یورپ کے کئی ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق ضلع گجرات سے ہے اور ان پاکستانیوں کو اپنے آبائی علاقوں میں پراپرٹی پر قبضہ اور جعلی مقدمات جیسے متعدد مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل کو حل کرکے اوورسیزپاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔
ملک پرویز مہر نے بتایاکہ ان مقاصد کے تحت پاکستان یونین ناروے کے چیئرمین چوہدری قمراقبال اپنے گذشتہ دنوں کے پاکستان میں قیام کے دوران یہی مسائل مقامی حکام کے سامنے رکھ چکے ہیں۔