پشاور(ارشد عزیز ملک) پشاور میں 156 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیزکے قیام کا انکشاف ہوا ہے جن میں 70 فیصد سے زیادہغیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز زرعی اراضی پر قائم ہیں جس سے پشاور کی زرعی اراضی ختم ہورہی ہے اور ضلع میں غذائی قلت کا خدشہ ہے ۔صوبے میں قیمتی زرعی زمینوں کو تیزی سے ہاؤسنگ سکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک کیس میںقرار دیا تھا کہ زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹی قائم نہیں کی جاسکتی۔اسی طرح ، وزیر اعظم عمران خان نے بھی تمام حکومتوں کوہدایات جاری کیں تھیں کہ زرعی زمینوں پر کوئی رہائشی سکیم شروع نہ کی جائے ۔خیبرپختونخوا کے وزیراعلی محمود خان نے ضلع پشاور میں غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز کے قیام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ۔جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ زرعی اراضی پر کسی کو بھی ہائوسنگ کالونی بنانے کی اجازت نہیں لہذا اس حوالے سے حکومت کا دوٹوک موقف ہے کہ بنجر اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹی قائم ہوسکتی ہے جس کے لئے تمام قانونی تقاضے پورےکرنااولین شرط ہے۔انھوں نے کہا کہ صوبے میں کسی بھی غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹی کو برداشت نہیں کیا جائے گا مالکان اور بلڈرز کے خلاف بھی کاروائی ہوگی انتقالات بھی بند کردیں گے ۔انھوں نے کہا کہ پشاور پچھلے کئی سالوں سے بے ہنگم طریقے سے پھیل رہا ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ۔محمود خان نے کہا کہ پشاور ماڈل ٹائون کے نام سے پشاور کے قریب ایک نیا شہر آباد کیا جارہا ہے جس سے پشاور پر دبائو کم ہوگا ۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 156ہائوسنگ سوسائٹیز غیرقانونی طورپر ضلع بھرمیں کام کررہی ہیں جنھوں نےقانون کے مطابق پی ڈی اے سے منظوری لی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی این او سی جاری کیا گیا ہے۔ر