ہم جن عمارتوں میں رہتے اور سانس لیتے ہیں، ان سے جڑی ویلیوچین زبردست تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI)، انٹرنیٹ آف تھِنگس، روبوٹکس اور دیگر ٹیکنالوجیز ناصرف اسمارٹ سٹیز، آٹومیشن اور نئے مواقع کا باعث بن رہی ہیں بلکہ تعمیرات کے شعبے میں نئی جہتیںبھی متعارف کرارہی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں اس ترقی کے نتیجے میں روایتی طریقہ تعمیرات کی جگہ آٹومیشن جبکہ ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کی جگہ روبوٹ لے لیں گے۔ ٹیکنالوجی میں ہر نئے روز آنے والی جدت کے باعث لوگوں کی عمریں بڑھ جائیں گی، جس سے جاب مارکیٹ سے لے کر خط حیات (Ecosphere) اور سماجی زندگی، ہر چیز بد ل جائے گی۔
احتیاطی تدابیر اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ترقی پذیر’ شعبہ خدماتِ صحت‘ کے باعث مستقبل کے معاشروں میں انسانوں کی عمریں بڑھنے کے امکانات ہیں۔CRISPR/Cas9جیسے جینوم میں تبدیلی کے تصورات سے اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ اس کے ذریعے جینیاتی انجینئرنگ کرکے انسانی زندگی میں اضافہ کیا جاسکےگا۔
دنیا کی ہر چیز کی ڈیٹافکیشن نے اس عمل کو مزید تیز کردیا ہے۔ اس کی مثالیں فٹنس ٹریکرز، نیوٹریشن ایپس یا پھر انٹرنیٹ آف تھنِگس کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں، جو انسانی صحت اور اس سے جڑے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں معاون ثابت ہورہی ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ میڈیکل سائنس میں اس ترقی کے نتیجے میں صنعتی اور دیگر ملکوں میں لوگوں کی اوسط عمریں 90سال اور اس سے بھی زائد حد کو چھونے لگیں گی۔
کثیرآبادی والے ممالک میں پائیدار (Sustainable)، لچکدار (Flexible)اور توانائی کی بچت کرنے والے چھوٹے گھروں کی طلب بڑھ جائے گی۔ جس رفتار سے ان ممالک میں ترقی ہورہی ہے، جنگلات اور زراعت کی جگہوں پر بھی تعمیرات کی جارہی ہیں، یہ رجحان کسی صورت بھی پائیدار نہیں ہے۔
آف لائن یا آن لائین؟
متذکرہ بالا صورتِ حال میں یہ ممکن ہے کہ انفرادی پرائیویسی بالکل ختم ہوکر رہ جائے۔ ڈیٹا کے قانونی یا غیرقانونی استعمال کے ڈر کے باعث، کچھ لوگ غیر منسلک گھروں یا آف لائن پبلک مقامات کا رُخ کرنے لگیںگے۔ اس منظرنامے میں آف لائن ریئل اسٹیٹ اور عمارتوں سے سینسرز ہٹانے یا اینٹی سرویلنس ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی کمپنیاں اُبھر کر سامنے آسکتی ہیں۔
اس منظرنامے کے اشارے پہلے ہی اسمارٹ سٹیز کے خلاف لوگوں کے بڑھتے خدشات کی صورت میں سامنے آنے لگے ہیں۔ کئی افراد کو اسمارٹ سٹیز میں وسیع پیمانے پر ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کے استعمال پر اعتراض ہے، جس کے باعث آف لائن رہائش اور De-droning سولیوشن دینے والی کمپنیاں اُبھر کر سامنے آرہی ہیں۔
ڈیٹا کے ڈریعے قیمت کا تعین یا قدر و قیمت
صنعتی ممالک میں لوگ اپنا 80فیصد وقت عمارتوں کے اندر گزارتےہیں، ترقی پذیر ممالک بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ عمارتیں ہی جدید دنیا میں لوگوں کا ماحول ہیں۔ آنے والے دنوں، مہینوں اور برسوں میں مزید آن لائن کاروبار دیکھنے کو ملے گا، زیادہ لوگ اپنے گھر کے دفتر سے بیٹھ کر کام کریں گے اور اپنی اپنی ورچوئل رئیلیٹیز میں مکمل طور پر کھو کر رہ جائیں گے۔ اندازہ ہے کہ زندگی گزارنے کے طور طریقے نہ بدلے تو مستقبل میں لوگ اپنا اوسطاً 90فیصد وقت عمارتوں کے اندر ہی گزاریں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ٹیکنالوجی کے باعث عمارتیں سینسرز اور انٹرنیٹ آف تھِنگس کے ذریعے انسانی زندگی کے ہر لمحے کا ڈیٹا اکٹھا کررہی ہوں گی۔
جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوم اپلائنسز، سرویلنس ٹیکنالوجی اور سینسرز انسان کے خرچہ کرنے کے انداز، سونے، جاگنے، بات چیت کرنے، پیار کرنے اور کام کرنے کا سارا ڈیٹا اکٹھا کریں گی۔ مستقبل کے اس منظرنامے کی جھلک پہلے ہی لیونگ لیبس ہاؤسز کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے، جہاں رہنے والے افراد کے ہر لمحے کا تحقیقاتی مقاصد کے لیےمشاہدہ کیا جاتا ہے۔
مستقبل کا بزنس ماڈل کچھ اس طرح ہوسکتا ہے کہ عمارتوں میں رہنے کے باعث 90فیصد انسانی زندگی کا ڈیٹا تحقیق کے لیے دستیاب ہوگا۔ عمارتوں کے ماحول پر ٹارگٹڈ یا پرسنلائزڈ اشتہارات کی بھرمار ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل کی عمارتوں کی قیمت کا دارومدار ان کی بہتر منصوبہ بندی، تعمیرات یا استعمال پر نہیں بلکہ اس بات پر ہوگا کہ ان عمارتوں کے اندر کتنا ڈیٹا پیدا ہوتا ہے۔
پائیدار رئیل اسٹیٹ
عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں تعمیراتی صنعت کا حصہ 20فیصد ہے۔ ماحولیات کو مزید عدم توازن سے بچانے اور مستقبل کی آبادیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیراتی صنعت میں کاربن کے اخراج میں قابلِ ذکر کمی لانا ہوگی۔ تھری ڈی (3D)پرنٹنگ اور مصنوعی حیاتیات (Synthetic Biology) کا امتزاج، تعمیرات کو پائیدار صنعت بنا سکتا ہے۔
مستقبل میں تھری ڈی کی مختلف تکنیکوں جیسے ریپڈ لیکویڈ پرنٹنگ، کنٹینیوئس لیکویڈ انٹرفیس پروڈکشن اور کریما کنٹینیوئس ایڈیٹیو تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے عمارتوں کے حصے یا پھر تمام عمارت تعمیر کی جاسکے گی۔ ان تکنیکوں کے ذریعے پرنٹ کی گئی تھری ڈی عمارتیں زیادہ لچکدار اور تعمیراتی لحاظ سے زیادہ مستحکم ہوں گی جبکہ عمارت کی لائف سائیکل بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً، وسائل کا استعمال اور مرمت کے اخراجات کم ہوجائیں گے۔