• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جزیرہ نما پہاڑی چوٹی پر قائم ’’قلعہ رام کوٹ ‘‘

جنت نظیروادی کشمیر میں صدیوں پرانے تاریخی قلعے موجود ہیں، جن میں سے ایک صدیوں پرانا ’’قلعہ رام کوٹ ‘‘ اپنے شاندار ماضی اور قدرتی حسن کی بدولت سیاحوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ آزاد کشمیر میں منگلاڈیم کے مقام پر واقع اس قلعے کی خاص بات جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا تین اطراف سے پانی میں گھرا ہونا ہے، جس کے باعث جزیرے پر قلعے کی تعمیر کا تاثر قائم ہوتا ہے۔ ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال سے ہوتے ہوئے سیاکھ اور وہاں سے بھیلی بھٹار تک سڑک کے ذریعے جایا جاسکتا ہے۔ چونکہ قلعہ پانی سے گھرا ہوا ہے، لہٰذا وہاں سے کشتی میں بیٹھ کر سفر طے کرنا پڑتا ہے جس کے اختتام پر پہاڑی کی چوٹی پر عظیم الشان قلعہ رام کوٹ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد دشوار گزار چڑھائی چڑھ کر قلعے تک پہنچ جاتا ہے۔

قلعہ کی تعمیر اور تاریخ کے بارے میں کوئی بات مصدقہ طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ گکھڑ دورِ حکومت میں فوجی ہیڈکوارٹر کی حیثیت رکھنے والا یہ قلعہ گکھڑوں کے سلطان نے 12ویں صدی کے وسط میں تعمیر کروایا تھا۔ 13ویں صدی کے آغاز میں شہاب الدین غوری نے قلعے پر حملہ کیا تھا جبکہ 17ویں صدی کے آخر میں رانی منگو نے اس کی تزئین و آرائش کی۔ 

تاہم کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر 16ویں صدی میں عمل میں آئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قلعہ رام کوٹ کی تعمیر کا آغاز مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیشِ نظر اپنی رعایا اور زمین کی حفاظت کے لیے چک حکمران غازی خان چک (چک خاندان کے بانی) نے 1560ء کے لگ بھگ اس قلعے کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ اس کی تکمیل سلطان یوسف شاہ چک کے دورِ حکومت میں 1579ء سے1586ء کے دوران ہوئی۔ 

اسی دوران انہوں نے مظفرآباد آزاد کشمیر میں ریڈ فورٹ کی تعمیر بھی شروع کی، یہی وجہ ہے کہ دونوں قلعوں کا ڈیزائن اور تعمیراتی ڈھانچہ ایک ہی طرز کا ہے۔ اپنے منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے یہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے دوسرے قلعوں سے مختلف ہے۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے قلعے کا زیادہ تر حصہ خستہ حالی کا شکار ہوکر اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 2005ء میں آنے والے زلزلے میں بھی اس قلعے کو کافی نقصان پہنچا۔ لیکن آج بھی باقی رہ جانے والے حصے اس کی شان و شوکت کی گواہی دیتے ہیں۔

جہلم اور پونچھ دریاؤں کے سنگم پر بنے اس قلعے کا مرکزی راستہ چوکیوں کے ساتھ بہترین حکمتِ عملی کے تحت بنایا گیا تھا تاکہ ہر زاویئے پر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ قلعہ بند حصے میں آمدورفت کا واحد راستہ بھی تھا۔ چٹان کے آخری سرے پر واقع چبوترے سے ایک طرف پونچھ کی خاموش لہروں تو دوسری جانب دریائے جہلم کا حسین نظارہ ہوتا ہے۔ یہ چبوترہ، جہاں سے کبھی سے ان دو دریاؤں کا نظارہ کیا جاتا ہوگا، آج مٹی کا ڈھیر معلوم ہوتا ہے۔ اونچے برجوں کی وجہ سے قلعے کو تسخیر کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ 

قلعہ جب 19ویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط تھا تو اس وقت فصیلوں کے ساتھ ڈھلوانیں، توپوں کے لیے کنگرے اور بندوقچیوں کے لیے تنگ سوراخ بنوائے گئے۔ ڈھلوانیں غالباً توپوں کو حملے کی پوزیشن میں لانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ قلعے کے اندر پانی کے دو بڑے تالاب بھی بنائے گئے ہیں جو قلعے کے مکینوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ پتھر سے بنائی گئیں چوڑی فصیلیں جن پر موجود پہرے دار گرد و نواح پر نظر رکھتے تھے، آج ویران نظر آتی ہیں۔ تاہم کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مضبوطی سے کھڑی قلعے کی یہ فصیلیں عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ قلعہ میں پرانی طرز کی ایک توپ بھی موجود ہے جسے نمائشی طور پر نصب کیا گیا تھا۔

1990ء کی دہائی کے اواخر تک یہ گمنام قلعہ زبوں حالی کا شکار تھا، مٹی کے ڈھیر اور جھاڑیوں نے قلعے کو چھپا رکھا تھا۔ وفاقی وزارتِ آثارِ قدیمہ کے پاس بھی قلعے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ نے رضاکارانہ طور پر قلعے کی بحالی میں مدد کی پیشکش کی اور ایک سال کی مسلسل محنت کے بعد قلعے کو کافی حد تک بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ سرکاری سطح پر اس تاریخی مقام کے تحفظ کے لیے زیادہ کام نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں اس تاریخی ورثے کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں جس سے یقیناً سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ 

قلعے کا پیچیدہ محلِ وقوع ماضی میں اس کے لیے کافی مفید رہا ہوگا لیکن اب یہی اس کی تنہائی کی وجہ بن گیا ہے۔ بہت ہی کم لوگ اس تاریخی قلعے کو دیکھنے یہاں آپاتے ہیں۔ قلعے تک پہنچنے کے لیے اگر سہولتیں فراہم کردی جائیں تو لوگوں کی بڑی تعداد یہاں کا رُخ کرے گی۔

تازہ ترین