ماہ دسمبر پاکستان کیلئے نہایت دکھ اور رنج و الم کا مہینہ ہے جس میں سقوط ڈھاکہ، سانحہ آرمی پبلک اسکول اور بینظیر بھٹو کی شہادت جیسے دلخراش واقعات پیش آئے۔ زندہ قومیں ملک کی قسمت بدلنے والے لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے جنہوں نے بے شمارقربانیاں دے کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے انتہائی قریبی تعلق تھا اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی تیرہویں برسی پر ان کے ساتھ گزارے گئے کچھ تاریخی لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994میں سائٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ کی تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے صنعتوں کی بحالی کا ایوارڈ دیا تھا۔ بعد میں محترمہ کی درخواست پر میں انہیں مختلف اوقات پر بیمار صنعتوں کی بحالی، ملکی معیشت اور توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے مختلف تجاویز دیتا رہا جس کی بناء پر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کرگئیں۔ بی بی عموماً اپنے خصوصی طیارے کی روانی کے بعد وفد کے ارکان کو فرداً فرداً بلاکر ان کی تجاویز اپنے دورے کے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں۔ 2002کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی، مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضاربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کرسکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔
بینظیر بھٹو کا شایانِ شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔ محترمہ اپنے قریبی ساتھیوں کومختلف ذمہ داریاں دے کر آزماتی تھیں۔ کراچی میںمحترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، شیری رحمٰن، رضا ربانی، رحمٰن ملک، شاہ محمود قریشی، قائم علی شاہ اور دیگر اہم پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔ اجلاس میں طے پایا کہ سیکورٹی کے پیش نظر محترمہ بینظیر بھٹو اپنے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ الیکشن کمیشن آفس نہیں جائیں گی۔ اس موقع پر میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی حاضری کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے فوراً الیکشن کمیشن کے اس وقت کے سیکریٹری کنور دلشاد سے رابطہ کرکے بینظیر بھٹوکا الیکشن کمیشن میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کیا۔ میں یہ بات محترمہ کو بتانا ہی چاہتا تھا کہ رحمن ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا جسے میں نے فخریہ انداز میں محترمہ کو پیش کیا۔ تحریری استثنیٰ دیکھ کر محترمہ نے مجھے Welldon کہا۔محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008کے انتخابات کیلئے کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250کا پارٹی ٹکٹ دیا۔ 2008کے الیکشن میں بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر پاکستان بھر میں مجھے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا تھا جبکہ اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی حمایت بھیحاصل تھی۔ شام کو میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی ڈیفنس رہائش گاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی اپنی تقریر شروع کی، آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو تیزی سے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ میں اپنے دوست فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیاہے۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنے عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ پارٹی کی درخواست پر میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ طیارے میں میرے ساتھ مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، شیری رحمٰن، فاروق ایچ نائیک اور پارٹی کے دیگر رہنما موجود تھے جنہیں یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ بینظیر بھٹو انہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ہیں۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کی بلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے‘‘۔
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
دراصل یہ میسج میں نے اپنے حلقہ NA-250 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر شکریہ کیلئے کیا تھا جس کے جواب میں بی بی نے مجھے میسج کیا تھا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔