پاک امریکہ تعلقات کبھی ایک جیسے نہیں رہے۔ ماضی میں ان میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہا۔نائن الیون کے بعد امریکہ ہم سے مسلسل ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایک ڈرامائی تبدیلی یہ آئی کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کے لئے پاکستان سے مدد مانگی۔ امریکہ افغانستان میں جنگ کیونکہ بری طرح ہار چکا تھا،اب اسے محفوظ راستے کی تلاش تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے افغان طالبان سے مذاکرات کےلئے پاکستان سے رابطہ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا کارڈ کھیل کر صدارتی الیکشن میں کامیاب ہونا چاہتے تھے مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ جوبائیڈن ٹرمپ کو ہرا کر کامیاب ہو چکے ہیں، اسی تنا ظر میں پاک امریکن سوسائٹی کے صدر شمس الزماں چند روز قبل امریکہ سے لاہور تشریف لائے تو انہوں نے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم کے ہمراہ لاہور میں ہماری ملاقات ہوئی۔شمس الزماں سے حالیہ امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی اور پاک امریکہ تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس ملاقات میں عامر نصرﷲ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر میں نے اُنہیں روزنامہ جنگ کے کالموں پر مشتمل اپنی کتاب ’’گردش ایام“ بھی پیش کی۔ ان کی امریکی سیاست پر گہری نظر ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں 1998میں ہونے والے اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں سیکرٹری جنرل بھی منتخب ہوئے تھے۔ وہ نیویارک میں رہتے ہیں۔پاکستانی کمیونٹی کے مسائل کے حل کےلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ گوادر میں ہاؤ سنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں کو ترغیب دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ گوادر اور پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی پالیسیاں سی آئی اے اور پینٹا گون بناتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں پاکستانی مسلمان کمیونٹی اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت نے جو بائیڈن کو ووٹ دیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ بہرکیف جوبائیڈن ایک متوازن صدر کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ اور غیرذمہ دارانہ طرزعمل کو امریکی عوام نے پسند نہیں کیا۔ افغانستان سے انخلا کے لئے امریکہ کو فی الوقت پاکستان کی ضرورت ہے اس لئے وہ ہمارے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، افغانستان سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔ اس حوالے سے پاکستان ہی افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب کرا سکتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کابینہ کی سطح کا اپنا اسٹاف تقریباً مکمل کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا ہوم ورک تیار ہوچکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک کابینہ لیول کے اسٹاف میں کوئی بھی مسلم نہیں ہے۔ آج سے پندرہ برس قبل یہی سلوک برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا لیکن اب وہاں صورتحال یہ ہے کہ برٹش پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں چالیس مسلمان موجود ہیں حتی کہ لندن کے میئر محمد صادق بھی مسلمان ہیں۔ اس تناظر میں مسلم سیٹلائٹ ٹی وی امریکہ میں کلیدی رول ادا کرسکتا ہے۔ امریکہ کے مسلمانوں کو اس وقت مضبوط لابنگ اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ امریکی مسلمانوں کو اپنا بیانیہ موثر انداز میں اجاگر کرنے کےلئے تھنک ٹینکس اورمسلم نیٹ ورک ٹی وی قائم کرنا چاہئے۔ یہ مسلم ٹی وی نیٹ ورک صرف امریکہ کے لئے ہی نہیں بلکہ یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی تر جمانی کرے گا۔
گزشتہ دنوں لاہوراورنج ٹرین میں بھی سفرکرنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ یہ ایک عوامی فلاحی منصوبہ ہے جس سے لاہور شہر کے باسیوں کو ٹرانسپورٹ کی ایک بہترین سہولت میسر آگئی ہے۔لاہور اورنج ٹرین پاک چین دوستی کی خوبصورت علامت ہے یہ چینی حکومت کی طرف سے سی پیک کا شا ندارتحفہ ہے۔ اورنج ٹرین علی ٹاؤن سے ڈیرہ گجراں تک لاہور کے ایک کونے کو دوسرے کونے سے ملاتی ہے۔ یہ 27کلومیٹر کا فاصلہ 45منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اورنج ٹرین کا یہ روٹ شہر کے انتہائی رش والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ حکومت کو ایسے عوامی فلاحی منصوبے ملک کے دیگر شہروں میں بھی شروع کرنے چاہئے اور ان منصوبوں پر کسی قسم کی سیاست نہیں کرنی چاہئے۔ کریڈٹ لینے کے چکر میں عوامی منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ البتہ اگر کسی نے ان عوامی منصوبوں میں کرپشن کی ہے تو ان کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔ دیر آید درست آیدکے مصداق اب ان شاء ﷲ آنے والے مہینوں میں گوادر پورٹ اور سی پیک کے دیگر منصوبے بھی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ سی پیک ایشیا ء کی ترقی کا منصوبہ ہے اس لئے اس سے امریکہ اور یورپ خائف ہیں۔