السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کچھ خواہشات ہیں
سویرے سویرے جنگ، سنڈے میگزین کا دیدار ہوا، تو دل میں یہ مصرع گونجنے لگا کہ ’’سُن یارا، سُن یارا…! تیرے عشق دا چولا پایا‘‘ دراصل جنگ، سنڈے میگزین کے عشق کا چولا تو کافی عرصے سے پہن رکھا ہے، مگر اس پیار کا اظہار کرنے کا موقع آج ملا ہے کہ سوچا تو کافی عرصے سے تھا، مگر بازی بہن لے گئی۔ اب خدا جانے آپ کو یہ اظہار بھاتا ہے یا نہیں…!! اب آتی ہوں شمارے کی طرف… تو اس دفعہ کا شمارہ بہت اعلیٰ تھا۔ منور مرزا نے کورونا ویکسین بننے کی خوش خبری سُنائی (یا ربّی شکراً)۔ ڈاکٹر قمر عباس اچھا کام کر رہے ہیں کہ نسلِ نو کو اردو ادب کے اِماموں سے روشناس کروا رہے ہیں۔ محمّد اسماعیل بدایونی کی کہانیاں اچھی ہوتی ہیں۔ مَیں نے بھی دو چار پڑھ رکھی ہیں۔ ’’رتی کے جناح‘‘ آہا، کیا مست ناول…!! ویسے میری کچھ خواہشات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ سے ملوں، آپ کو جانوں اور آپ کے کام کرنے کے طریقے کا مشاہدہ کروں اور دوسری یہ کہ ’’رتی کے جناح‘‘ کہیں سے اکٹھا مل جائے اور ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالوں، مگر… ؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے… اسٹائل مجھے کچھ خاص پسند نہیں۔ اسٹار یاسر اختر کی باتیں پسند آئیں، اور ہاں غزل ’’دشمنِ جاں کی مہربانیاں‘‘ ہائے کیا کہنے!! پروفیسر منصور علی کی داستانِ ہجرت پڑھ کر نانا جان ذہن میں آئے۔ وہ بھی مہاجر ہیں اور مَیں اکثر اُن سے ہجرت کے واقعات سُنتی رہتی ہوں۔ اور قارئین کی جان ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو گُل و گُل زار ہے اور محمّد سلیم راجا میرے ’’غائبانہ گرو‘‘ سب سے پہلے اُن ہی کا خط پڑھتی ہوں۔ اب بس کرتی ہوں، یہ نہ ہو کہ آپ کی ایڈیٹنگ کی قینچی میرے خط کو لیر و لیر کردے۔ آخر میں دُعا ہے کہ اللہ رب العزت میگزین کو دن دُگنی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)۔ (وجیہہ تبسّم، خان کانی، لاہور روڈ، شیخوپورہ)
ج: اپنا دَم سنبھال کے رکھو۔ ایسے چھوٹی چھوٹی خواہشات پہ نکلتا رہا تو تم گزار چُکی زندگی۔ ’’رتی کے جناح‘‘ ہفتہ وار شایع ہو تو رہا ہے، ایسی بھی کیا بےصبری۔ ہمارے یہاں مکمل چَھپ جائے گا، تو پھر کتابی شکل میں بھی دست یاب ہوگا۔ اور ہم سے ملنے کے لیے تو تمہیں کراچی آنا ہوگا۔
گرویدہ کرلیا ہے
سنڈے میگزین کے مستقل سلسلے اپنی مثال آپ ہیں۔ مگر نئے سلسلوں کا بھی جواب نہیں ہوتا۔ خصوصاً نئے ناول اور جہانِ دیگر میں اسپین یاترا نے تو اپنا گرویدہ کرلیا ۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
بہت حسّاس موضوع ہے
عالمی اُفق میں منور مرزا امریکی الیکشن میں ٹرمپ کی واضح شکست کے باوجود ’’مَیں نہ مانوں‘‘ کا تجزیہ اپنے ماہرانہ انداز میں کررہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں انعم وصی نے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی طرزِ حکومت پر اچھے پیرائے میں روشنی ڈالی۔ حافظ محمد زوہیب نے حضوراکرم ﷺ کی بہترین سفارت کاری سے روشناس کروایا۔ سنڈے اسپیشل میں فاروقِ اعظم نے گلگت بلتستان کے آئینی تشخّص پر ناقدانہ تبصرہ کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منور راجپوت ذیابطیس کے ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ بات چیت میں اہم انکشافات کر رہے تھے۔ مگر ہم اور احتیاط…؟ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ ہم نے کورونا کو سنجیدہ نہیں لیا، تو ذیابطیس ہمارے آگے کیا بیچتی ہے۔ ناول ’’رتی کے جناح‘‘ میں ڈاکٹر طاہر مسعود قائد کی مضبوط شخصیت کےنرمل گوشے اجاگرکررہے ہیں۔ بڑا حسّاس موضوع ہے، مگرڈاکٹرصاحب اپنی بھرپور صلاحیتوں سے بخوبی نبھارہے ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے پری میچور بچّوں کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر محمّد اطہر رضا دانت کی حسّاسیت پر بہت اچھی تحریر کے ساتھ آئے۔ شفق رفیع نے مِنی ایچر آرٹسٹ، فرحان فیصل سے متعارف کروایا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ گلیمر سے بھرپور تھا۔ منور راجپوت نے مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی ؒ سے تفصیلاً متعارف کروا کے بڑا اجر کا کام کیا۔ ’’متفرق‘‘ میں احتشام انورترقی پسند تحریک کے عروج و زوال کا احوال سُنا رہے تھے۔ پیاراگھر، ڈائجسٹ، نئی کتابیں، ناقابل فراموش اچھے رہے اور اپنے صفحے کی صدارت پر اس بار اسماء خان دمڑ کو براجمان پایا۔ 13نومبر کے جنگ اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ سراج الدولہ کالج کے پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کا انتقال ہوگیا، کیا یہ ہمارے صفحے والے مجیب ظفر ہی ہیں؟ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پور خاص)
ج: جی ہاں۔ اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے، یہ وہی پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی ہیں۔ اور دیکھ لیں، بس یہی زندگی ہے، اس قدر بےثبات اور بے بھروسا۔ کون جانے ہم میں سےبھی کل کون ہوگا، کون نہیں۔
چالیس سال پہلےکا واقعہ
تقریباً دو ہفتے قبل سنڈےمیگزین میں حاجی محمّد شریف صاحب کا خط نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے لکھا کہ سرِورق پر ایک طرف ماڈل کی تصویر ہے اور دوسری طرف خاتم النبیینﷺ کی سیرتِ مبارکہ تحریر ہے، تو اس صفحے کو کیسے سنبھالا جائے۔ میری عُمر 65سال ہے۔ اس حوالے سےاپنا ایک تجربہ شیئر کرنا چاہوں گا۔ یہ چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے، اُن دنوں انگریزی اخبار ’’The Muslim‘‘ شایع ہوتا تھا۔ مَیں دفترِخارجہ میں ملازم تھا۔ میرے باس کےپاس وہ اخبار آیا کرتا۔ ملیحہ لودھی صاحبہ اُس کی ایڈیٹر تھیں۔ وہ باس کے پاس اکثر تبادلہ خیال کے لیے بھی آیا کرتی تھیں۔ ایک دن وہ دفتر تشریف لائیں، تو اُس دن کے اخبار میں ایک جوتے کی تصویر کے ساتھ ایک اشتہار شایع ہوا تھا،جس کے نیچے رسولِ پاکﷺ کے روضۂ مبارک کی تصویر تھی۔ مَیں نےاُن کی توجّہ اس جانب مبذول کروائی کہ ’’اوپر جوتے کی تصویر اور نیچے روضۂ مبارک… یہ بہت نامناسب بات ہے‘‘ تو محترمہ نے فوراً معذرت کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور واقعی اگلے دن سے جوتے کی تصویر شایع کرنے پر مکمل پابندی لگ گئی۔ مجھے امید ہےکہ قارئین آئندہ بھی متعلقہ ذمّےداران کو ایسے معاملات سے آگاہ کرتے رہیں گے تاکہ غیر مناسب اشاعت کی روک تھام ممکن ہوسکے۔ (محمّد سبطین رضوی، جناج گارڈن، گلی نمبر52، اسلام آباد)
ج: نبی کریم ﷺ سے لازوال محبّت و عقیدت ہر مسلمان کے ایمان کا حصّہ اور اُمّت پر رسول اللہ ﷺ کے حقوق میں سے اہم ترین حق ہے۔ انسان اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اُس کے نزدیک رسول کریمﷺ کی ذات گرامی والدین، بیوی بچّوں اور خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے۔ اور اس ضمن میں وقت کوئی اہمیت نہیں رکھتا، 40برس پہلےکا عرصہ ہو یا 40برس بعد کا۔ کوئی بھی ذی شعور مسلمان دانستہ نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ سو، جس بات کا پہلے نوٹس لیا گیا، آج بھی بعینہہ لیا جاتا ہے۔
سابقہ ناولز پیچھے رہ جائیں گے
شمارے کے ٹائٹل پر گہرے نیلے رنگ کے لباس میں کُھلے بالوں کے ساتھ ہیوی مسکارا لگائے، صراحی دار گردن والی نازنین نہایت حسین لگ رہی تھی۔ اندرونی صفحات پر منور مرزا نے جمہوری نظام اور کووڈ19- پر لکھا۔ اصغر ندیم سیّد سے گفتگو میں مزہ آیا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود بھی ایک بڑا نام ہے، جس انداز سے ناول کاآغاز ہوا ہے، لگتاہے، سابقہ سب ناولز پیچھےرہ جائیں گے۔ رپورٹ اچھی رہی، سینٹراسپریڈ میں سُرخ اور فیروزی کے ملبوسات اچھے تھے۔ جہانِ دیگر میں اسپین یاترا خوب جا رہی ہے۔ مرزا رمضان نے جنگلات کے فروغ پر اچھا لکھااور’’آپ کاصفحہ‘‘میں توسلیم راجہ ہی چھائے رہے۔ اگلا شمارہ بھی زبردست تھا۔ مگر سرِورق پرماڈل واجبی سی لگی۔ سرچشمۂ ہدایت پڑھا۔ منورمرزا نےحالات وواقعات میں FATF کے حوالےسے بہترین تجزیہ پیش کیا۔ سینٹر اسپریڈ پر گہرے نیلے رنگ کالباس پسندآیا۔ ڈاکٹرسیّد منصور نے ذیابطیس کےحوالے سےکیا شان دارتحریرلکھی،سمیحہ قاضی عرصےبعدواردہوئیں۔ عالیہ کاشف نے مناسب انٹرویو لیا۔ منشاپاشا اورثناء جاوید کا انٹروپو بھی کروائیں پلیز… غرناطہ کی سیر خُوب رہی، مزہ آگیااور ہاں، عرفان جاوید کو تو واپس لائیں۔ (پیر جنید علی چشتی، ملتان)
ج: عرفان جاوید کا کام اس قدر عرق ریزی کا ہوتا ہے کہ یوں اُن کا جلدی جلدی آنا ممکن نہیں۔ اور بانیٔ پاکستان سے متعلق ناول کا تو سب پر بازی لے جانا بنتا بھی ہے۔
خوش گوار یادوں کے ساتھ
کیکٹس میں پھول کِھلنے کا موسم آپہنچا، تو اس پودے کے خاندان میں اضافہ کیا۔ خالی بوتلوں میں اس کی قلمیں لگائیں اورکانٹوں کے درمیان کِھلتے پیلے، سُرخ پھولوں کو دیکھ کر یہی سوچتا رہا کہ حالات خواہ جیسے بھی ہوں، ہمیں ان پھولوں ہی کی طرح مُسکراتے رہنا چاہیے۔ ہماری ارضِ پاک مقدّس ماں کی صُورت ہے،یہ ایک کِھلتا ہوا چمن ہے اور ہمیں ہی اس چمن کی نگہبانی کرنی ہے۔ ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے حوالے سے زبردست لکھاری منوّر مرزا کا کہنا بالکل درست کہ27 میں سے21 اہداف کا حصول پاکستان کی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں؟ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے شانِ مصطفیٰﷺ کے حوالے سے بالکل درست لکھا کہ آپ ﷺ کا ادب و احترام بنی نوع کا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔ تن تنہا ایک بھیڑ، منتشر، بکھری قوم کو یک جا کر کے اتحاد، تنظیم اور یقیں محکم کا درس دینےاور ایک لڑی میں پرونے والے،محمّد علی جناح کی زندگی کے نرمل گوشوں پر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قلم اُٹھانا کوئی عام بات نہیں۔ سلسلہ جس خُوبی و عُمدگی سے آگے بڑھ رہا ہے، ایڈیٹر کی محنت بھی واضح دکھائی دےرہی ہے۔ رائو محمّد شاہد اقبال کی تحریر تو سنڈےمیگزین کی شان کو عالی شان کیے دیتی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں پھیپھڑوں کی سرطان کےحوالے سےڈاکٹر اقبال پیرزادہ کا مضمون معلوماتی ثابت ہوا۔ ڈاکٹر خالد اقبال نے بھی نمونیا سے متعلق سودمند معلومات فراہم کیں۔ ذہین و فطین عبدالغفارعزیز بھائی کی یادداشتیں آنکھیں نم کرگئیں۔ جہانِ دیگر کا اسپین سیر سپاٹا بڑی خوش گوار یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اور اب باری ہے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی سات چھٹیوں کے بیچ مُسکراتے تخت سنبھالے خُوب جچے۔ آخر میں دُعا کہ جریدہ اِسی آب و تاب کے ساتھ جگمگاتا رہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی،جھڈّو ،میرپورخاص)
فیملی کی سرخیل
سنڈے میگزین پڑھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مرزا نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی ایجاد کا بتا کر دِل خوشی سے بَھر دیا۔ اللہ کرے، دُنیا جلد اس موذی وبا سے نجات پا جائے۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کا کرشن چندر سے متعلق مضمون ہمیشہ کی طرح معلومات کا ذخیرہ تھا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا گیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں منوّر راجپوت کی ڈاکٹر محمّد اسماعیل سے گفتگو خُوب رہی۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی شخصیت کےچُھپے گوشوں کو اس خُوبی و عُمدگی سے وا کیا کہ محبّت و عقیدت دوچند ہوگئی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر عالیہ کاشف کی تحریر نے عیاں کیا کہ ؎ رنگ پیرہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔ ڈاکٹر کشور انعام کے موبائل فون کے حوالے سے مشورے بچّوں اور بڑوں کے لیے یک ساں مفید ٹھہرے۔ حکیم راحت نسیم کا دارچینی پر مضمون اچھا تھا۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کی پروفیسر نگہت اور پروفیسر سیّدمنصور علی کی تحریریں دِل کی گہرائیوں میں اُتر گئیں اور رہی بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تو یہ ایک فیملی کی مانند ہے، جس کی سرخیل مدیرہ جی ہیں۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں ،ضلع بہاول نگر)
ج:اور’’اتنی بڑی فیملی‘‘ کاسرخیل ہونا، بخدا کسی آزمایش سے کم نہیں کہ دَورِحاضر میں تو دو بچّوں کاخوش حال گھرانہ سنبھالنا آسان نہیں، کجا کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولتی اتنی لمبی چوڑی فیملی کو سمیٹ کے رکھنا۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
بہت اچھی نرجس جی! سلامِ محبت۔ آپ اور آپ کی ٹیم کو سالِ نو مبارک اور میرے پیارے پاکستانیوں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، خصوصاً آپ لوگوں کو کہ ہر طرح کے حالات میں بِنا کسی ناغے کے، ہر اتوار آپ کی محنت و ریاضت کا نچوڑ ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اپنا سفرِ عُمرہ چَھپا دیکھ کر ایک ناقابلِ بیان خوشی ہوئی۔ بخدا آپ ’’محبتوں کی سوداگر‘‘ ہیں۔ لوگوں کو اپنی چاہت و الفت کا اسیر کرلیتی ہیں اور اسیران کے لب پہ ہوتا ہے ؎ اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے۔ اور یہ بھی صرف آپ کا ہنر ہے کہ اپنے قیمتی وقت میں سے لمحے چُرا کر ہم لوگوں کا دل رکھ لیتی ہیں۔ احفاظ الرحمٰن صاحب کو اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے۔ آپ کے آرٹیکل سے پہلے ہم جیسے کم علم اُن سے ناآشنا ہی تھے۔ اُن کی ایک بچّوں کی کتاب کا تعارف پڑھا تھا بس، وہ بھی اس لیےکہ تبصرہ آپ نے کیا تھا، لیکن آپ کی تحریر سے علم ہوا کہ وہ کتنے قابل اور عالی دماغ تھے۔ ایک اعلیٰ استاد کی لائق شاگرد نےاپناحقِ شاگردی بہترین طریقے سےاداکیا کہ آج سارا پاکستان احفاظ الرحمٰن صاحب سے واقف ہے، اس مضمون میں لکھا آپ کا ایک جملہ ذہن میں بس کر رہ گیا کہ ’’مَیں اپنے ماں باپ اور شوہر کے بعد احفاظ صاحب کی مقروض ہوں‘‘ واللہ، بہت رشک آیا۔ پاکستان میں خال خال خواتین ہی یہ خراجِ تحسین پیش کر سکتی ہیں، وگرنہ پاکستانی شوہر ہی مقروض نکلتے ہیں۔ انعمتیٰ علی کو جو جواب آپ نے دیا، بخدا یوں لگا ؎ مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ کیسی کیسی ہنرمند اور قابل لڑکیاں (ہم سمیت) شوہروں کو پیاری ہوگئیں۔ ایک شمارے میں آپ نے ایک بچّی کی فرمائش پر کچھ چھاپا، تو اُس نے سرخوشی سے لکھا، ’’میرے پاس آپ ہیں‘‘ اُس کا یہ انداز ممنونیت و لُطف دے گیا۔ سرچشمۂ ہدایت میں ’’شانِ مصطفیٰ ﷺ‘‘ جیسے حسّاس موضوع پر حافظ محمّد ثانی نے قلب و رُوح گرمانے والی تحریر رقم کی۔ بلاشبہ، اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب مقدّس ترین ہستیوں کی بےحرمتی قطعی نہیں کہ ؎ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ منور مرزا کے سنجیدہ تجزیے اصل حقائق سے روشناس کرواتے ہیں۔ ناول شروع کرکے بلاشبہ آپ نے ہماری بہت بڑی مانگ پوری کی ہے اور ناول بھی ہمارے قائد سے متعلق، جن سے ہم دل سے پیار کرتے ہیں اور اب تو یہ تعظیم سوا ہو گئی ہے۔ وہ عظیم شخص، جس نے ہندوستان کا جغرافیہ بدل دیا، نجی زندگی میں جب ہنستے مسکراتے ہوں گے، کتنے دل کش لگتے ہوں گے۔ سنڈے اسپیشل میں رائو اقبال ہر دفعہ کی طرح انوکھا ساموضوع ہی لائے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں پھیپھڑوں کے سرطان اور نمونیا کی روک تھام سے متعلق پڑھ کر کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ڈاکٹر سمیحہ یادداشتیں کے ساتھ موجود تھیں۔ ’’جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالغفار عزیز کی شان دار یادیں شیئر کیں۔ جہانِ دیگر… اُف اس کے بارے میں کیا لکھیں، قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ… بچپن سے نسیم حجازی کے ناولز اور بعد میں تاریخی کتب پڑھ پڑھ کر اسپین سے محبت سی ہوگئی اور یہ یاترا پڑھ کر تو یوں لگا کہ ہم بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اِک رشتہ، اِک کہانی اور ناقابلِ فراموش ٹھیک ہی لگے اور آخر میں بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، مطلب ہمارے صفحے پھولوں کی دکان، خوشبو کے مکان کی۔ جواب پڑھ پڑھ کرلُطف اندوز ہوتےہیں اور ہفتے کی چِٹھی تو امریکن انتخابات جیسی ہوگئی، کبھی ری پبلکن (راجاجی) تو کبھی ڈیموکریٹس (شہزادہ جی) عوام النّاس کی تو باری ہی نہیں آتی۔ (رانی خاور میو، لاہور)
ج: عوام جب گھروں میں دبک کے بیٹھے رہیں سال میں ایک آدھا باربمشکل باہر نکلیں تو پھر راجوں، شہزادوں ہی کا راج چلے گا۔ انہی کی لاٹری نکلتی رہے گی۔
گوشہ برقی خُطوط
ج:بہت دل جمع ہوگئے بھئی…! اب تو ہمارے پاس رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔
ج:ای میل کرکے یہ سوال کرنے کا مطلب علاوہ ’’مخول‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ کے خیال میں اس صفحے پر آکر لوگ کیا اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ بھئی یہ سلسلہ جریدے کے مندرجات پر تبصرے ہی کی نیّت سے شروع کیا گیا تھا اور تاحال یہی ہورہا ہے۔ اگر آپ نے کبھی میگزین کھول کر دیکھنے کا تردّد کیا ہوتا، تو یہ سوال ہرگز نہ کرتے۔
ج: مضمون شامل ہوچکا!
ج:یہ بتایئے، پہلے سے بہتر ہوتی ہے یا نہیں؟
قارئینِ کرام!
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk