موت کا وقت اگرچہ مقرر ہے ،مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کی تسلی اور صبر کے لیے اس کے اسباب مقرر کردیے ہیں ۔ 2020ء میں علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد ہمیں داغ مفارقت دے گئی ،وہ حضرات جو علم و عمل کے جامع تھے ،ان کے وجود سے بزم عالم خالی ہوتی جارہی ہے ، علمی مجالس کی رونقیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔عملِ صالح میں بھی روز افزوں کمی کی وجہ سے انسانیت بھی کمزور پڑتی جارہی ہے۔عملِ صالح کی کمی سے انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔
گزشتہ سال کتنی ہی عظیم علمی ہستیاں داغِ مفارقت دے گئیں ، علماء و مشائخ نے اسے عام الحزن قرار دےدیا۔ انہی شخصیات میں سے مولانا فضلِ ربی ندوی رحمہ اللہ بھی تھے جو 23؍ دسمبر 2020ء کو ہم سے جدا ہوگئے، مولانا فضلِ ربی ندوی ’’دار العلوم ندوۃ العلماء‘‘ کے فاضل تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے خاص نیاز مندانہ تعلق رکھتے تھے، اسی نیاز مندی کا ثمرہ تھا کہ آپ پاکستان میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے علوم کے ناشر تھے، حضرت علی میاں بھی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے بھرپورسرپرستی کا معاملہ فرماتے رہے۔
مولانا فضلِ ربی ندویؒ 1943ء میں دہلی میں پیدا ہوئے، آ پ کے والد کا بڑا کاروبار تھا جو دہلی، کلکتہ اور کراچی تک پھیلا ہوا تھا۔ دیگر بچوں کی طرح معمول کے مطابق آپ کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، آپ اسکول میں عصری تعلیم کے حصول میں مشغول تھے کہ آپ کے والد کا تعلق علماء سے قائم ہوا، آپ نے اپنے ہونہار فرزند کو ندوۃ العلماء میں داخل کروادیا ۔
مولانا فضل ربی کا بیان ہے:’’ یہ اللہ کا عظیم احسان اور میری بڑی سعادت اور خوش قسمتی کی بات تھی۔ اس طرح میں ندوہ کے قیام کے دوران حضرت کی زیر نگرانی و سرپرستی ۱۹۶۴ء تک رہا۔ ان سات برسوں میں حضرت مرشدی ؒ کو قریب سے دیکھا، آپ کی مجلسوں میں بیٹھا۔حضرت کی ذات مجموعۂ محاسن تھی۔ اخلاص، سچائی، متانت، دل جوئی، دل کی پاکی، عمل کی قوت، تواضع و خاکساری، عبادت و ریاضت اللہ تعالیٰ نے ان تمام اوصاف سےحضرت علی میاں ندویؒ کو مزین فرمایا تھا۔ مجھ ناچیز پر حضرت کی محبتیں شفقتیں ناقابلِ فراموش ہیں‘‘۔(مولانا علی میاں کے خطوط،ص:۱۱)
آپ اگرچہ ندوۃ العلماء سے سند فراغت حاصل کرچکے تھے (موجود تبلیغی بزرگ مولانا احمد لاٹ مدظلہٗ ان کے رفقائے درس میں سے ہیں) مگر پاکستان آنے کے بعد آپ نے محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیے اور جامعہ علوم اسلامیہ میں دورۂ حدیث کی سماعت کی۔
مولانا فضل ربی ندوی ؒکا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں علی میاں رحمہ اللہ کے علوم کی خوب نشرو اشاعت کی اور آپ کی کتب کو اعلیٰ پیمانے پر شائع کر کے ملک کے گوشے گوشے میں پہنچایا ۔آپ نے صرف مولاناسید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کتابیں ہی نہیں شائع کیں ، بلکہ دیگر عظیم مصنفین کی کتب اور ندوۃ العلماء کا عربی کا مکمل نصاب بھی شائع کیا ،یہ ادارہ اور مکتبہ ندوہ تقریباً سات سو کتب شائع کرچکا ہے۔
ایک مرتبہ میں نے مولانا فضل ربی ندویؒ سے پوچھا کہ کتابوں کی اشاعت تو آپ کا کام نہیں تھا، اس طرف آپ کیسے آئے؟ فرمانے لگے کہ حضرت علی میاںؒ نے فرمایا ’’ تم اس حق کو ادا کرسکوگے جو ہمارا تمہارے اوپر عائد ہوتا ہے‘‘ بس یہ جملہ دل پر اثر کر گیا اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو، اب یہ کام کرنا ہے ۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے جو خطوط مولانا فضل ربی ندوی ؒکو تحریر کیے ،ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس طرح مولانا فضل ربی ندویؒ کی رہنمائی بھی کی، حوصلہ افزائی بھی کی اور خوشی کا اظہار کر کے خوب خوب دعاؤں سے نوازا، کاروانِ زندگی میں لکھا:’’پاکستان کے اس سفر میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ عزیزی مولوی فضل ربی ندوی کی کوشش و توجہ سے جنہوں نے ہماری تصنیفات کی اشاعت کے لیے پاکستان میں مجلس نشریات اسلام کے نام سے کراچی میں مستقل ادارہ اور مکتبہ قائم کیا تھا، میری تصنیفات پاکستان میں خوب پھیل گئی ہیں اور اہل ذوق نے ان کو ہاتھو ںہاتھ لیا ہے ، اکثر جلسوں میں حاضرین خاص طور پر نوجوان کوئی نہ کوئی کتاب لیے کھڑے ہوتے تھے اور اس پر دستخط کرنے کی فرمائش کرتے تھے، ایک داعی اور خاص فکر و مقصد رکھنے والے مصنف کے لیے یہ بات باعث مسرت ہے، اور مجھے فطری طور پر یہ دیکھ کر خوشی اور اطمینان ہوا کہ ان کتابوں کی اشاعت اس ملک میں اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی جتنی شاید ہندوستان میں بھی نہیں ہوئی ‘‘۔(کاروانِ زندگی،حصہ دوم،ص:۲۶۶)
مولانا فضل ربی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی اصلاحِ باطن کی طرف بھی توجہ کی، جس طرح ظاہری علم خصوصاً دین و شریعت کا علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا،بلکہ کسی ماہر استاد کی شاگردی اختیار کرنی پڑتی ہے، اسی طرح باطنی اور روحانی علم اور تزکیہ و احسان کی دولت کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرنے، اس کی خدمت میں بیٹھنے اور اس کی رہنمائی سے حاصل ہوسکتی ہے، اپنے دل کی صفائی اور اعمال کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ کسی صاحب دل کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا جائے ، بلکہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا جائے۔
مولانا فضل ربی ندویؒ کو زمانۂ طالب علمی سے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒسے قلبی لگاؤ تھا۔ مولانا علی میاں رحمہ اللہ ایک جید عالم دین، اپنے وقت کے عظیم دانشور اور ممتاز مذہبی اسکالر ومفکر تو تھے ہی لیکن اقلیم علم کے تاجدار ہونے کے ساتھ آپ عظیم روحانی شخصیت بھی تھے، آپ نے امام الاولیاء شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری اور قطب الارشاد مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہما اللہ کی راہنمائی میں سلوک کی منازل طے کی تھیں اور ہر دو حضرات سے خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے تھے، حق تعالیٰ شانہ نے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کو اوصاف حمیدہ ، جذبات صالحہ کے ساتھ سوز و گداز سے بھرا ہوا درد مند دل عطا کیا تھا، آپ کو عالم اسلام کی سربلندی اور اصلاح امت کے لیے گھلنے، پگھلنے اور تڑپنے کی دولت ودیعت فرمائی تھی ۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ مولانا فضل ربی ندویؒ کے استاد بھی تھے، ان سے دلی مناسبت بھی تھی،اس لیے اپنی اصلاح کے لیے بھی حضرت کے دامن سے وابستہ ہوگئے، اور مسلسل حضرت سے رابطے میں رہے اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے طالب رہے، حضرت نے بھی آپ پر شفقت اور آپ کی سرپرستی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ، چناں چہ وقتاً فوقتاً اپنے خطوط کے ذریعے ان کی رہنمائی کرتے رہے ۔ ایک مرتبہ لکھا:’’ تم نے جو اپنی ذہنی کیفیت لکھی ہے ،اسے پڑھ کر تردد ہوا، تم پر اللہ تعالیٰ کے اتنے انعامات ہیں کہ تمہیں ذہنی طور پر پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اللہ تم سے تبلیغ و دعوت کا ایسا بیش قیمت کام لے رہا ہے کہ تمہیں اس کی قدر و منزلت کا اندازہ نہیں۔ چوں کہ اس کام کی نسبت ہماری طرف ہے، اس لیے ہم اسے زیادہ سراہ نہیں سکتے، ورنہ وہ اتنا بڑا کام ہے کہ تم اس کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ ذہنی پریشانی دور کرنے کے لیے تم درود شریف کی کثرت کرو اور ڈاکٹر عبدالحی کے پاس جا کر کچھ دیربیٹھا کرو‘‘۔(خطوط،ص:۲۵)
اپنے شیخ کی ہدایت کے مطابق مولانا فضل ربیؒ اکثر و بیشتر ڈاکٹر عبدالحی عارفیؒ کی خدمت میں حاضری دیتے اور آپ کی مجالس میں شرکت فرماتے ، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو مولانا فضل ربی ؒسے جو تعلق تھا ،آپ کے خطوط سے ان کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ، ان خطوط میں بارہا تحریر فرمایا کہ ہمارا آپ سے تعلق تجارتی نہیں،بلکہ داعیانہ اور مصلحانہ ہے۔
مولانا علی میاں جب جولائی ۱۹۷۸ء میں رابطۂ عالمی اسلامی کی طرف سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں آپ کا قیام ہوا تو مولانا فضل ربی ؒکے گھر کو بھی رونق بخشی جس کا تذکرہ آپ نے اپنے خط میں کیا ہے۔اسی طرح جب ۱۹۸۴ء میں پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں چار روزہ قیام کیا تو اس وقت بھی ایک دن مولانا فضل ربیؒ کے گھرتشریف لائے، مولانا فضل ربی ؒکے توسط سے مفتی جمیل خان شہیدؒ نے حضرت علی میاںؒ سے وقت لیا تھا اور آپ کے گھر پر ہی حضرت سے ملاقات کی تھی ، میں بھی ساتھ تھا، غالباً روزنامہ جنگ کے لیے انٹرویو لیا تھا، انہی دنوں کچھ ماہ قبل اقرأ روضۃ الاطفال کا آغاز ہوا تھا تو اقرأ کے لیے بھی حضرت ؒسے وقت لیا اور حضرت بہت ہی شفقت فرماتے ہوئے چند لمحات کے لیے اقرأ تشریف لائے تھے اور اپنی دعاؤں سے نوازا تھا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒؒ کے بعد مولانا فضل ربی ندویؒ نے حضرت سید نفیس شاہ الحسینی ؒسے رجوع کیا جو حضرت رائے پوریؒ کے اجلہ خلفاء میں تھے، حضرت شاہ صاحبؒ کے بعد مولانا سعید احمد جلالپوری شہید رحمۃ اللہ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے ، حالانکہ مولانا سعید احمد جلال پوریؒ آپ سے عمر میں بہت چھوٹے تھے،مگر آپ نے اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی اور اپنے سے چھوٹے سے اصلاح کے لیے رشتہ جوڑا۔
ان اکابر کے علاوہ بھی علماء و مشائخ سے آپ کا رابطہ رہا، آپ ان کی خدمت میں حاضری دیتے، ان سے استفادہ کرتے اور ان سے اپنے لیے دعائیں کرواتے ۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا نور اللہ مرقدہٗ نے جب فیصل آباد میں پورے ماہ کا اعتکاف کیا تو مولانا فضل ربی ندویؒ نے بھی اس اعتکاف میں شرکت کی اور حضرت شیخ کے فیوض و برکات سے مستفید ہوئے۔
حج و عمرہ کا بھی آپ کو ذوق تھا، متعدد بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین حاضری دی۔ ایک مرتبہ ان کی رفاقت کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا، مفتی محمد جمیل خان ؒسے بہت گہرا تعلق تھا ، یہی وجہ ہے کہ مفتی جمیل ؒ کے ساتھ عمرہ بھی ادا کیا اور حج بھی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے جب وسطی ریاستوں میں جو نئی نئی روس کے تسلط سے آزاد ہوئی تھیں، وہاں پانچ لاکھ قرآن کریم کی طباعت کا ارادہ کیا تو مفتی جمیل ؒ نے اس سلسلے میں ازبکستان کے متعدد سفر کیے ۔ایک مرتبہ مولانا فضل ربی ندویؒ کو اپنے ساتھ اس نیت سے لے گئے کہ آپ کو کتابوں کی طباعت کا اچھا تجربہ ہے اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔مولانا فضل ربی ندوی ؒپہلے ازبکستان اور اس کے بعد ماسکو گئے، وہاں ایک پریس میں قرآن کریم کی طباعت کا کام ہو رہا تھا۔ ایک مرتبہ مولانا کے صاحب زادے مولانا زبیر نے بھی ان ریاستوں کا مفتی جمیل ؒ کی رفاقت میں سفر کیا ہے۔ مولانا فضل ربیؒ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر مگر خاموشی سے حصہ لیتے تھے۔ بہت سے مدارس اور ضرورت مندوں کی مدد اس طرح کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا فضل ربی ندویؒ کو بیوی بھی ایسی عطا کی تھی جو نیک، صالحہ خاتون تھیں اور آپ کے خیر کے کاموں میں آپ کی معاون تھیں، ان کی اہلیہ محترمہ ایک دینی، علمی، تبلیغی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی اہلیہ کے نانا مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ کے ساتھ کام کرنے والوں میںسے تھے ۔ تبلیغی جماعت کراچی کے بزرگ بھائی ابراہیم عبدالجبار ان کے ماموں تھے، ڈاکٹر مفتی عبدالواحد ان کے بھائی تھے اور رائے ونڈ کے بزرگ مولانا احمد بٹلہ ان کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ اس دین داری کا اثر ان کی اولاد میں بھی پایا جاتا ہے ۔
ماشاء اللہ علماء، مشائخ اور بزرگوں کی صحبت اور گھر کے دینی ماحول کا اثر تھا کہ آپ نے اپنی اولاد کی دینی نہج پر تربیت کی ۔ آپ کی ایک ہی صاحب زادی ہیں ،وہ بھی عالمہ ہیں اور ما شاء اللہ چاروں بیٹے قرآن کریم کے حافظ ہیں جن میں تین صاحب زادے عالم بھی ہیں اور اس طرح آپ کی اولاد آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ولد صالح یدعو لہ کا مصداق ہیں۔
اللہ تعالیٰ مولانا فضل ربی کی مساعیٔ جمیلہ کو قبول فرمائے، انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، ان کے خیر کے کاموں کو جاری و ساری رکھے اور ان کی اولاد کو ان کا صحیح جانشین بنائے۔(آمین)