• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تک پاکستان میں متبادل کی تلاش کا روٹ واشنگٹن سے لگتا رہا ہے۔ واشنگٹن سے مراد اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، سی آئی اے اور وائٹ ہائوس ہے۔ واشنگٹن جی ایچ کیو کے ذریعے اپنی تلاش کو مستحکم بناتا ہے۔ اس کے لیے سیاسی اتحاد بھی بنائے جاتے ہیں۔ نئی سیاسی پارٹیاں بھی وجود میں لائی جاتی ہیں۔ 50کے عشرے میں ری پبلکن پارٹی راتوں رات وجود میں آگئی تھی۔

اب دیکھنا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بھی اسی روٹ سے آرہی ہے یا نہیں۔ عمران خان کے متبادل کی تلاش۔ بلکہ خود متبادل کی حیثیت سے پیشکش کو کیا واشنگٹن۔ پنڈی کی پشت پناہی حاصل ہے؟ لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کا طنطنہ زمین بوس ہورہا ہے۔

اب جلسیاں ہورہی ہیں۔ ترتیب تو یہ ہوتی ہے کہ پہلے کارنر میٹنگ۔ پھر شہروں میں جلسے۔ ایک بڑا جلسہ اور اس کے بعد اسلام آباد میں دھرنا۔ لیکن عمران خان کے دھرنے کی حکومت گرانے میں ناکامی نے اس روٹ کو بے اثر کردیا ہے۔حکومت گزشتہ ماہ کے جھٹکوں کے بعد سنبھل چکی ہے۔

متبادل کی تلاش واشنگٹن سے شروع ہوتی رہی ہے۔ وہاں تو اب کے منظر نامہ بدلا ہوا ہے۔ نو منتخب صدر کو ہی عہدہ سنبھالنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ 20جنوری کو وائٹ ہائوس میں اوول آفس میں متمکن ہونے کے بعد جوبائیڈن کو پہلے تو امریکہ کے معاملات درست کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد وہ دنیا میں تبدیلیوں کی امریکی روایت نبھانے کے لیے فرصت پاسکیں گے۔ فیصلہ وہیں سے ہوتا ہے۔

معلوم نہیں کہ نواز شریف۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے کوئی ایلچی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگارہے ہیں یا نہیں جبکہ عمران انتظامیہ کے لابی اسٹ واشنگٹن میں رابطوں میں سرگرم ہیں۔

مختصراً جان لیجئے کہ ایوب خان کی جگہ یحییٰ خان بھی اسی روٹ سے آئے۔ پھر بھٹو صاحب تو سیدھے واشنگٹن سے آئے۔ اور یحییٰ خان کے سارے اختیارات بشمول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سنبھالے۔ پھر1977 میں جنرل ضیاء الحق بھی اسی روٹ سے آئے۔ اس کے لیے جلسے جلوس۔ پی این اے نے کیے۔

ضیا سب سے سفاک حکمران تھے۔ لیکن سب سے کامیاب بھی۔ انہوں نے نفرت، فرقہ پرستی، لسانی، نسلی تقسیم کی جو فصل کاشت کی تھی، وہ اب تک پھل پھول رہی ہے۔ جنرل ضیا کے خلاف ایم آر ڈی میں واشنگٹن شریک نہیں تھا۔ یہ تحریک بڑے پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر صرف سندھ اور فقط ہالا تک محدود ہوگئی۔

ضیا وردی اتارنے کو تیار نہیں تھے۔ اس لیے واشنگٹن نے اپنے سفیر کی بھی قربانی دی اور جہاز کے حادثے میں ان کا کامیاب عہد نذر آتش ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کی قربانیوں کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کو دو تہائی سیٹیں ملنی چاہئے تھیں انہیں صرف 93سیٹیں ملیں۔

سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی نے اپنے خط میں انہیں میڈم پرائم منسٹر لکھا۔پھر راستے ہموار ہوتے گئے۔ لیکن انہیں بھی برداشت نہ کیا جاسکا۔ وہ بھی واشنگٹن، جی ایچ کیو اور ایوان صدر(غلام اسحق خان) کے روٹ 58/2bکا شکار ہوئیں۔ پھر میاں نواز شریف اسی روٹ سے آئے۔

اسی روٹ سے گئے ۔ سپریم کورٹ نے اگر چہ بحال کردیا تھا مگر ایک لانگ مارچ کی دھمکی کارگر ہوئی۔ آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے وزیر اعظم سے بھی اور صدر سے بھی استعفیٰ لے لیا۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار آئیں۔ لیکن انہیں دو تہائی اکثریت نہیں ملی۔

ان کو ہٹانے کے لیے بھی۔ واشنگٹن۔ جی ایچ کیو اور ایوان صدر کا روٹ لگایا گیا۔ ایوان صدر میں ان کی اپنی پارٹی کے رہنما صدر تھے پھر میاں نواز شریف کی باری آئی۔ وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔ اپنی مرضی کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیاء الدین بٹ کو لانا چاہا۔ مشرف کے سری لنکا سے آنے والے جہاز کو فضا میں معلق رکھا گیا۔ پھر فوج نے مزاحمت کی۔ اور چیف ایگزیکٹو والی فوجی حکومت آئی۔

مشرف پہلے واشنگٹن کی مخاصمت کا مرکز تھے۔ امریکی صدر کلنٹن نے دورہ پاکستان میں ان کے ساتھ تصویر بھی بنوانے سے انکار کیا۔ لیکن نائن الیون نے جنرل مشرف کو امریکہ کا سب سے پسندیدہ حکمران بنوادیا۔ مشرف کے متبادل کی تلاش بھی واشنگٹن سے شروع ہوئی۔

پہلے بے نظیر بھٹو اور مشرف کی حکومت قائم کرنے کے لیے لندن اور ابو ظہبی میں بے نظیر۔ مشرف ملاقاتیں ہوئیں۔ مگر بے نظیر شہید کردی گئیں۔ سب سے زیادہ نقصان مشرف کو ہوا، وہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیکورٹی اور خارجہ پالیسی اپنے پاس رکھنے والے صدر نہ بن سکے۔ لیکن یہ سہرا مشرف کے سر ہی ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ اور حکومت کے پانچ سال پوری کرنے کی بنیاد رکھی۔

اس کے بعد آصف زرداری بھی واشنگٹن۔ جی ایچ کیو کے روٹ سے ہی آئے۔ انہوں نےاپنے صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کرکے ایک تاریخ ساز اقدام کیا۔

پھر میاں نواز شریف متبادل کے طور پر اس روٹ سے آئے لیکن اُن کی فوج اور عدلیہ سے لڑائی جاری رہی۔ اب کے وہ عدلیہ سے فارغ ہوئے۔پھر عمران خان کو مسیحا کے طور پر لایا گیا۔ روٹ انکا بھی وہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جو حکمران بھی آیا وہ اسی روٹ سے آیا۔ اسے انتخابات کے ذریعے لانے کی رسم پوری کی جاتی رہی ہے۔

پی ڈی ایم کی سرگرمیوں نے عمران خان کو فی الحال اور مضبوط کردیا ہے۔ اقتصادی اصلاحات کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ڈی ایم اور واشنگٹن ہم خیال ہیں۔ کیا واشنگٹن اور جی ایچ کیو میں ہم آہنگی ہے؟ واشنگٹن کو تو ان دنوں اپنی بپتا پڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف کورونا سینکڑوں جانیں لے رہا ہے دوسری طرف ٹرمپ نئے نئے احمقانہ اقدامات کررہا ہے۔

20جنوری کو جوبائیڈن کی حلف برداری ہوگی۔ جنوبی ایشیا اور پاکستان ان کی ترجیحات میں نہیں ہوگا۔ آپ مقامی طور پر دیکھ لیں کہ پاکستان میں موجودہ امریکی سفیر کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو بے نظیر اور مشرف کے دَور میں ہوتی تھی۔

جوبائیڈن صدارت پرگرفت حاصل کرنے کے بعد پہلے بھارت اور ایران میں تبدیلیاں لانا چاہیں گے۔ پی ڈی ایم پہلا رائونڈ تو ہار چکی ہے۔ انہیں آئندہ کا لائحہ عمل بہت سوچ سمجھ کر ترتیب دینا چاہئے۔ فی الحال ان کی طاقت ضائع ہورہی ہے۔

تازہ ترین