• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین نے زندگی کے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر، بہادری ،ہمت اور دلیری سےدکھائے، چاہے وہ کھیل کا میدان ہو ،تعلیم کا یا جنگ کا ہو ۔غر ض یہ کہ ہر میدان میں نمایاں کردار اداکرکے داد وصول کی۔

دوسری جنگ ِعظیم میں چند ایسی خواتین شامل تھیں ،جن کی بہادری اور حوصلے نے ان کو منفرد بنایا اور ان کی کہانیاں انہیں لاکھوں افراد میں نمایاں کرتی ہیں ۔ان کے بارے میں مختصراً نذر قارئین ہے ۔

نور عنایت خان

برطانوی جاسوس نور عنایت خان کا تعلق ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھا ۔ان کے والد انڈین جب کہ والدہ امریکی تھیں۔وہ ماسکو میں پیدا ہوئیں ۔ پیرس میں تعلیم حاصل کی ۔زبان پر عبور ہونےکی وجہ سے انہیں برٹش اسپیشل آپریشنز کے انڈ ر کور ایجنٹس میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ وہ ان برطانوی جاسوسوں میں شامل تھیں جو نازی جرمنی کے زیرِ قبضہ فرانس میں پیراشوٹ کے ذریعے داخل ہوئے۔ ان لوگوں کا مقصد تھا کہ نازیوں کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کیا جائے۔

نور عنایت نے ریڈیو آپریٹر کے طور پر کام کیا۔ وہ اتنی خطرناک ذمہ داری لینے والی پہلی خاتون تھیں۔ نازیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچنے کے لیے وہ اپنی جگہ مسلسل بدلتی رہتی تھیں۔بل آخر ایک روز انہیں نازی پولیس گستاپو نے گرفتار کر لیا، ان سے سخت تفتیش کی گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بعد ازاں انہیں جیل بھیج دیا گیا ،جہاں سے انھوں نے کئی مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی۔ لوگوں انہیں ان کے خفیہ نام’’ میڈلین‘‘ سے جانتے تھے۔ جرمنوں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ نور عنایت انڈین تھیں۔ 

ان کی بہادری پر انہیں برٹش جارج کراس اور سونے کے تمغے کے ساتھ فرانس کے فوجی اعزاز کروئی ڈی گوئر سے نوازا۔ لندن کے گورڈن اسکوائر گارڈنز میں ان کی یادگار بھی نصب ہے۔ وہ آج بھی لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، اپنی بے مثال بہادری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ان اصولوں کی وجہ سے بھی جن کے لیے انھوں نے جدوجہد کی۔ نور عنایت خان کے خیالات صوفیانہ تھے اس لیے وہ تشدد کی قائل نہیں تھیں لیکن انھوں نے فسطائیت کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی۔

لیوڈمیلا پاولیچینکو

ان کا شمارتاریخ کی کامیاب ترین نشانچیوں (سنائپر) میں ہوتا ہے۔ 1941 ءمیں نازی جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران انہوں نے 309 جرمن فوجیوں کو نشانہ لگا کر ہلاک کیا۔ان کا نشانہ بننے والے درجنوں جرمن خود نشانچی ہی تھے جواس لڑائی میں لیوڈ سے ہار گئے ۔

سویستاپول اور آڈیسا کے محاصرے کے دوران ان کی کارکردگی کی وجہ سے انھیں لیڈی ڈیتھ یا موت کی عورت کا نام دیا گیا۔سوویت یونین کی ریڈ آرمی کے ایک نمائندے کے طور پر انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا ۔ ان کوسوویت یونین کے گولڈا سٹار ہیرو کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن بعد میں ان کا نام تاریخ کے اوراق سے ہٹا دیا گیا۔

نینسی ویک

ان کی شخصیت کئی لحاظ سے غیر معمولی تھی۔ جنگجو اور نازیوں کی سخت دشمن نینسی نیوزی لینڈ میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی پرورش آسٹریلیا میں ہوئی۔ وہ 16 سال کی عمر میں اسکول سے بھاگ گئیں اور فرانس جا کر صحافی کی حیثیت سے نوکری کرنے لگیں۔اسی دوران ایک فرانسیسی صنعت کار سے شادی کرلی ۔بعدازاں وہ فرانس کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئیں ۔

نینسی اتحادی افواج کے ہوا بازوں کو اسپین کی طرف جانے میں مدد کرتی تھیں۔ جب جرمنوں کو ان کے نیٹ ورک کے بارے میں خبر ہو ئی تو وہ اسپین کے راستے برطانیہ فرار ہو گئیں۔ کچھ عرصے بعد نینسی ویک پیراشوٹ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر فرانس آگئیں ۔ 

انھوں نے کئی خطرناک کارروائیوں میں حصہ لیا۔ایک مرتبہ جب اتحادی افواج کے قیمتی ریڈیو کوڈ لڑائی کے دوران ضائع ہو گئے تو نینسی ویک متبادل کوڈ حاصل کرنے کے لیے سائیکل پر 500 کلومیٹر کا سفر طے کر کے دشمن کے علاقے میں گئیں۔ ان کے مختلف کارناموں پر انہیں ایوارڈز سے نوازا گیا ۔

جین ویال

جین ویال کی پیدائش کانگو میں ہوئی ۔کم عمر ی میں ہی وہ پیرس چلی گئیں ۔جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو وہ جرمنی میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کررہی تھیں ۔کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ پیرس چھوڑ کر جنوبی علاقے میں منتقل ہوگئیں اور فرانسیسی مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی ۔وہ نازی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھتیں اور اس بارے میں اتحادی افواج کو معلومات پہنچاتی تھیں۔

ایک مرتبہ ان پر غداری کا مقدمہ کیا گیا ،تاہم ان کے راز حکام کی نظروں سے پوشیدہ رہے ،کیوں کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا کو اتنی اچھی طر ح کوڈ کیا ہوا تھا کہ ان کو آسانی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا ۔جین ویال کو پہلے تو کونسنٹریشن کیمپ میں بھیجاگیا ،بعد میں خواتین کی جیل منتقل کر دیا گیا۔ جہاں سے وہ فرار ہو گئیں کچھ عر صے بعد سیاست میں وارد ہوئیں اور فرانس کی سینیٹ کی رکن منتخب ہوگئیں۔

ہیڈی لیمر

ہیڈی لیمر، آسٹریا میں یہودیوں کے امیر خاند ان میں پیدا ہوئیں ،جہاں ان کا نام ہیڈ وِگ ایوا ماریہ کیسلر رکھا گیا۔ انہوںنے ایک سینما اسٹار کی حیثیت سے کام شروع کیا ،جس میں انہوں نے بہت شہرت حاصل کی ۔ان کی شادی ایک صنعت کار سے ہوئی ،ان کے شوہر کے دوستوں میں کئی نازی بھی تھے ۔لیمر اس صورت ِحال سے جان چھڑا کر پہلے پیرس اورپھر لندن فرار ہوگئیں ۔ لندن میں ان کی ملاقات ایم جی ایم اسٹوڈیو کے سربراہ لوئی بی میئر سے ہوئی۔

ان کے ساتھ انہوں نے 30 سے زائد فلموں میں کام کیا اور مشہو ر بھی ہوئیں ۔لیکن انہوں نےزیادہ شہرت جب حاصل کی جب انہوں نے اتحادی افواج کے تار پیڈو کے لیے ایسا نظام تیار کیا جو دشمن کی جانب سے انہیں جام کرنے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی فریکوینسی تبدیل کر سکتا تھا۔ ان کی اس بے مثال ایجاد کے کئی عنصر آج بھی بلیو ٹوتھ اور وائی فائی ٹیکنالوجی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

میا ای

ان کی جدوجہد دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے برما پر حملہ کرنے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی ۔وہ برطانوی تسلط سے آزادی کی مہم میں ایک پرجوش کارکن تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ مزاحمتی قوتوں میں شامل ہو گئیں اور اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ ایک تلوار اور زہر کی بوتل ساتھ رکھتی تھیں۔ برطانیہ کے زیرِ تسلط انڈیا تک جانے اور جاپانیوں سے لڑنے کے لیے انہوں نے دشمن کے علاقے اور پہاڑیوں کو پیدل چل کر پار کیا۔ 

سفر کے دوران انہوں نے اپنے زخموں کو اپنی چادر سے بند کیا اور ساتھ چلنے والے مردوں کی جانب سے مدد کی پیشکش کو رد کر دیا۔انڈیا میں انہوں نے برما پر فضا سے گرائے جانے والے پمفلٹ بنانے میں کردار ادا کیا۔ ان پمفلٹ میں برما کے لوگوں پر جاپانیوں کے مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔

آزادی کے لیے ان کی جدوجہد بعد میں بھی جاری رہی، پہلے وہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑ رہی تھیں، بعد میں انہوں نے اپنے ملک کی فوجی جنتا کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ان کی بہادری ،ہمت اور دلیری اپنی مثا ل آپ تھی۔

تازہ ترین