• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عالمی ادب، بالخصوص ناول نگاری میں نت نئے موضوعات اور ان کو پیش کرنے کے انداز میں میں نئی جہتیں متعارف ہوئیں۔ تخلیق کو تحقیق کے ساتھ ملاکر لکھاجانے لگا، جس کی وجہ سے فکشن میں نان فکشن موضوعات بھی در آئے، لیکن اس ترکیب سے لکھے گئے ادب نے قارئین کو سوچنے کے نئے زاویے مہیا کیے۔ ایسی کہانیوں پر بننے والی فلموں نے بھی ناظرین کے تصور کو وسعت اور کشادگی دی۔

اس تناظر میں تاریخ نویسی کو کہانی کے طور پر پیش کرنے کے انداز کو انگریزی ادب میں’’ہسٹوریکل فکشن‘‘ کہا گیا، یعنی ایسا ادب، جس میں تاریخ کی عکاسی کی جائے، اس طرز کی کہانی میں ماضی کے واقعات کو پیش کیا جائے یا پھر کہانی کا وقت کسی مخصوص تاریخی عہد سے متعلق ہو اور یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے، مرکزی کردار کا تعلق تاریخ کے کسی اہم دور سے ہو۔ اس طرز کے ادب کو دنیا بھر میں بہت مقبولیت ملی، یہی وجہ ہے، کئی دہائیوں سے اس نوعیت کا ادب تسلسل سے تخلیق ہو رہا ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی اس طرز کا ادب مقبولیت پا رہا ہے، اس نوعیت کے ادب کے لیے، انگریزی زبان میں تاریخ کے موضوع پر ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں میں محمد حنیف اور بپسی سدھوا کو کلیدی مقبولیت حاصل ہے۔

اس انداز کے لکھنے والے ایک اہم امریکی ناول نگار کا نام’’مائیکل بلیک‘‘ ہے، جنہوں نے امریکی تاریخ کے موضوع پر سلسلہ وار تین ناول لکھے، لیکن سب سے زیادہ شہرت، ان کے پہلے ناول’’ڈانس وِد وُوّ لوز‘‘ یعنی ’’بھیڑیوں کے ہمراہ رقص‘‘ کو ملی۔’’مائیکل بلیک‘‘ ایک ایسے ادیب کے طور پر سامنے آئے، جنہوں نے بیک وقت دو کام کیے، پہلے تو تخیل کے زور پر سوچی اور محسوس کی ہوئی کہانیوں کو ناول کی صورت میں لکھا، پھر اپنے لکھے ہوئے ہی کئی ناولوں کو فلم کے پردے کے لیے دوبارہ لکھا اور اسکرپٹ کی شکل دی۔

مائیکل بلیک نے صحافت کی تعلیم’’یونیورسٹی آف نیو میکسیکو‘‘ سے حاصل کی، پھر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر بارکلے کے ایک فلم اسکول سے مزید تعلیم حاصل کی۔ اپنی صحافتی تعلیم کی بنیاد پر امریکی ایئر فورس کے صحافتی شعبے سے وابستہ ہوگئے۔انہوں نے کل سات ناول اور تین فلموں کے اسکرپٹ لکھے، جبکہ تین فلمی کہانیوں کی تشکیل میں معاونت فراہم کی، جبکہ اپنی سوانح عمری بھی لکھی۔ ایک فلم کو لکھنے کے ساتھ ساتھ ہدایات بھی دیں۔ 

ان کے سب سے پہلے ناول’’ڈانس وِد وُوّلوز‘‘ یعنی’’بھیڑیوں کے ہمراہ رقص‘‘ پر معروف اداکار و ہدایت کار اور ان کے دوست’’کیون کوسٹنر‘‘ نے فلم بنائی، بلکہ اس کہانی کو ناول اور پھر فلم اسکرین پلے لکھنے کے لیے ان کے اسی دوست نے ان کو راغب کیا تھا کہ جب یہ فلم بنی تو انہوں نے ہی پروڈیوس بھی کیا۔ اس فلم نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ ز قائم کیے۔ یہ فلم امریکی فلمی دنیا کے سب سے مقبول ترین اعزاز’’آسکر ایوارڈ‘‘ کے لیے بارہ شعبوں میں نامزد ہوئی اور یوں تریسٹھویں آسکر ایوارڈز کے لیے، اس فلم نے سات ایوارڈز اپنے نام کیے، جس میں بشمول بہترین فلم، بہترین ہدایت کاری، بہترین اسکرین پلے اور بہترین سینماٹوگرافی بھی شامل تھے۔ متذکرہ ناول اور فلم کی کہانی مساوی ہے۔ اس کہانی میں امریکا کی سول وار کازمانہ دکھایا گیا ہے، جو انیسویں صدی کا زمانہ ہے۔ 

امریکا کے مقامی باشندے، جن کو’’ریڈ انڈین‘‘ کہا جاتا ہے، ان کو اپنے حقوق اور بقا کی لڑائی کرتے دکھایا گیا ہے، جس میں ان کے ساتھ حادثاتی طور پر مل جانے والے ایک سفید فام فوجی افسر کو دکھایا گیا ہے، جو اس جنگ میں ان قبائلیوں کی مدد کرتا ہے۔ ان قبائلی لوگوںمیں ایک سفید فام عورت بھی معاونت کے فرائض انجام دیتی ہے۔ اس طرح یہ کہانی، ناول اور فلم کی صورت میں امریکی تاریخ کے اہم ترین باب کو تفصیل سے مثبت پہلوئوں کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اس فلم کے لیے مقامی امریکی ریڈ انڈین قبائلیوں کی حقیقی زبان’’لکوٹا‘‘ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فلم کی پذیرائی نے ناول نگار اور فلم ساز دونوں کو عالمی سطح کی شہرت عطا کی۔ یہ تخلیقی تجربہ ادب اور فلم کے مابین تعلق استوار کرنے کے لیے بھی بہترین ثابت ہوا۔

تازہ ترین