ایک بین الاقوامی آن لائن ویبنار کے مقررین نے یورپ سمیت اقوام عالم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں بشمول بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزیوں کی فوری روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
"جمہوریت و انسانی حقوق: یورپ میں کرفیو، کشمیر میں کرفیو، آئیے فرق کو سمجھیں" کے عنوان سے اس ویبنار کا اہتمام یورپ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے متحرک تنظیم کشمیرکونسل ای یو نے 26 جنوری کے یوم سیاہ کے موقع پر کیا۔
یاد رہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں اور دیگر ممالک میں رہنے والے کشمیری 26 جنوری جو دراصل بھارت کا یوم جمہوریہ ہے، کو ہرسال یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
ویبنار میں متعدد یورپی و کشمیری اور پاکستانی دانشوروں، عالمی و علاقائی امور کے ماہرین و سماجی و سیاسی شخصیات اور صحافیوں نے شرکت کی۔
خطاب کرتے ہوئے سابق رکن یورپی پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد حیدر کریم نے کہاکہ مودی حکومت نے غیرقانونی اقدامات کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو نئی دھلی کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ضروری ہے کہ یورپی کمیشن بھارت کے یورپ سے تجارت کے حوالے سے یورپی پارلیمنٹ کے 2008 کے فیصلے پر قائم رہے۔
سجاد کریم جو طویل عرصے تک یورپی پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں، نے ہمیشہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی حمایت کی ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ یورپ، بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کی شرط پر قائم رہے۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی علمبردار اور سیاسی نفسیات کی ماہر ماریان لوکس نے کہاکہ ہمیں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ آج ہم بھی کووڈ 19 کی وجہ سے کرفیو کا سامنا کررہے ہیں لیکن یہ کرفیو مقبوضہ کشمیر کے کرفیو سے مختلف ہے۔
یورپ میں ہم اپنی آزادی اور اپنے حقوق پر بات کرسکتے ہیں اور یہ کرفیو ایک بیماری کی وجہ سے ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے دوران سڑکوں اور گلیوں میں ٹینک اور فوجی گشت کررہے ہیں۔ انہوں نے کئی سال پہلے کرفیو کے دوران اپنے دورہ سری نگر کا بھی تذکرہ کیا۔
سابق رکن یورپی پارلیمنٹ شفق محمد نے کہا کہ آج برطانیہ اور یورپ کو کرفیو کا سامنا ہے اور کوئی بھی اس لاک ڈاؤن پر خوش نہیں، لیکن یہ لاک ڈاؤن مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈاؤن سے بالکل مختلف ہے جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ یہ پانچ اگست 2019 کے بعد نہیں ہوا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں طویل عرصے سے جاری ہیں۔ فوجی سڑک پر لوگوں کو گولی ماردیتے ہیں اور سیاسی شخصیات مسلسل قید و بند کا سامنا کررہے ہیں۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید جو ویبنار کے دوران میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے، نے کہاکہ ہم یورپ میں کشمیریوں کے حقوق اجاگر کرتے رہیں گے اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں اور دنیا کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔
پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن مشال حسین ملک نے کہا کہ آج مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی ہورہی ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کشمیریوں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ سلامتی کونسل سمیت عالمی اداروں کو چاہیے کہ کشمیریوں کی مدد کریں جو اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
انہوں نے بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے جاری منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بھارت نے ڈومیسائل قانون تبدیل کردیا ہے تاکہ غیر کشمیری وہاں مستقل رہائش اختیار کرسکیں اور جائیداد خرید سکیں۔
ہالینڈ کے تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ایووت کلائی نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو نازیوں کے ہالینڈ میں مظالم سے تشبیہہ دی۔ انہوں نے ہالینڈ سمیت یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔
تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید نے کہاکہ ہم مقبوضہ کشمیر کے کرفیو کا یورپ کے موجودہ لاک ڈاؤں سے موازنہ نہیں کرسکتے، کیونکہ یورپ کا کرفیو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن کشمیر پر بھارتی قبضہ جاری رکھنے کے لیے ہے۔
ہنگری سے تعلق رکھنے والے صحافی میکولاس کریوانسکی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل خود کشمیریوں کو پیش کرنا ہوگا اور باہر کی دنیا کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ انہوں نے بھارت میں اقلیتوں کو شہریت دینے کے معاملے میں تعصب پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔